جواب:
قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے مصارف زکوۃ بیان فرمائے ہیں۔ جن سے پتہ چلتا ہے کہ زکوۃ کی رقم کہاں اور کن مقاصد کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے۔
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ.
(التَّوْبَة ، 9 : 60)
بیشک صدقات (زکوٰۃ) محض غریبوں اور محتاجوں اور ان کی وصولی پر مقرر کئے گئے کارکنوں اور ایسے لوگوں کے لئے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں اور قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے،
یہ وہ لوگ ہیں جو مستحقین زکوۃ ہیں جن کو زکوۃ دینی چاہیے۔ اگر اپنے قریبی رشتہ دار مستحقین زکوۃ ہوں یعنی وہ ضرورت مند ہوں تو وہ سب سے زیادہ حقدار ہیں۔ اس سے زکوۃ دینے والے کو دوہرا اجر وثواب ملے گا ایک زکوۃ جو فرض ہے اس کی ادائیگی کا اور دوسرا صلہ رحمی کا۔ اپنے قریبی رشتہ داروں میں خالہ، پھوپھی، بھانجے، بھتیجے، بھتیجیاں، داماد اگر غریب ہو، بہو اگر غریب ہو تو ان سب کو ترجیح دیں گے اگر یہ مستحقین زکوۃ ہوئے۔
اس کے علاوہ تمام نیک امور میں زکوۃ ادا کی جا سکتی ہے۔ ان تمام مقاصد کے لیے زکوۃ ادا کی جا سکتی ہے جو خیر پر مبنی ہوں، یعنی تمام رفاہی ادارے، تعلیمی ادارے، مریضوں کے علاج معالجے، غریب اور مستحقین طلباء، دینی مدارس، سکول، دیگر ضرورت مندوں کی ضروریات پر خرچ کرنا اور ہر اس کام کے لیے زکوۃ کی رقم استعمال کی جا سکتی ہے جس سے غریب اور مستحق عوام کا بھلا ہو۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔