جواب:
فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ
اپنی پسند کی عورتوں سے نکاح کرو
(النساء4 : 3)
قرآن پر عمل کریں نوجوانوں کو اچھے مشورے ضرور دیں، لیکن اپنی پسند ان پر مسلط نہ کریں کہ بہت سی پریشانیوں کاسبب بنتی ہے۔ حق مہر کی رقم معقول رکھی جائے تا کہ بچی کا مستقبل محفوظ رہے۔ قرآن کریم میں فرمایا۔
وَإِنْ أَرَدتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنطَارًا فَلاَ تَأْخُذُواْ مِنْهُ شَيْئًا
اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بدلنا چاہتے چاہو۔ اور ڈھیروں مال دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ واپس نہ لو۔
(النساء 4 : 20)
قرآن کریم سے یہ بات واضح ہو گئی کہ حق مہر ڈھیر سارا بھی ہو سکتا ہے۔ اور اس دور میں تو زیادہ حق مہر ہی رکھنا چاہیے۔ تاکہ آئے دن طلاقوں کا تماشا ہی ختم ہو۔ اور عورت کی عزت بحال ہو۔
حق مہر معاف کرنے میں جلدی نہ کی جائے۔ ہاں اس کے مطالبہ میں تراخی و تاخیر کی جائے۔ حق مہر ایک قرض ہے اور اس کے برقرار رہنے سے اس کا مقصد حاصل ہو گا۔ یعنی بچی کے مستقبل کا تحفظ۔ اس ضمانت کو ضائع نہ کریں۔ مرد کو بھی معاف کروانے سے زیادہ اس حق کی ادائیگی کی فکر کرنی چاہیے۔ ہر چند کہ عورت معاف کر سکتی ہے مگر اس میں جلد بازی اور دباؤ نہیں ہونا چاہیے۔ عمر بھر اپنی لاعلمی کی وجہ سے اپنے شرعی حقوق سے محروم رہتی ہیں اور جب محرومیں سے تنگ ہوتی ہیں تو نادان اسلام اور علمائے اسلام پر برستی ہیں۔ حالانکہ اسلام نے انہیں اپنی مرضی کی شادی کا حق دیا۔ ماں، باپ، بھائی، خاوند، اولاد، بہن کے ترکہ میں مقرر حصہ دیا ہے۔ لیکن یہاں کی %90 عورتوں کو اپنے ان حقوق کا علم ہی نہیں، اول تو مسلمانوں میں تعلیم ہی کم ہے۔ پھر نام نہاد پڑھے لکھے بھی شرعی احکام سے ناواقف ہیں۔ مردوں اور عورتوں دونوں کو اسلام کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ قرآن و حدیث اور فقہ اسلامی کا ذخیرہ آسان اردو میں موجود ہے۔ یہ علمی خزانہ کسی خاص طبقے کے لیے خاص نہیں۔ اللہ کی رحمت سب کے لیے عام ہے۔ اس سے استفادہ کریں۔
پہلے نکاح فارم پر کریں۔ متعلقہ اشخاص کے دستخط کروا لیں، پھر لڑکے لڑکی دونوں سے اجازت لیں۔ لڑکی کو لڑکے کا پورا تعارف کروائیں۔ حق مہر دونوں کی مرضی اور اجازت سے طے کروائیں۔ خاندان والے باوقار طریقہ سے گھر والوں کے سامنے لڑکے اور لڑکی کی ملاقات کروائیں۔ تاکہ وہ دیکھ کر اپنی پسند کا اظہار کریں۔ اس سلسلہ میں قرآن کریم کا حکم اوپر ذکر ہو چکا " کہ اپنی پسند کی عورتوں سے نکاح کرو۔" جس کا صریح مفاد یہ ہے کہ دیکھ کر نکاح کرو کہ دیکھے بغیر پسند کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں۔
اذا خطب احدکم المرءة فان استطاع ان ينظر الی ما يدعوه الی نکاحها فليفعل
تم میں سے کوئی عورت کو نکاح کا پیغام دے تو اگرممکن ہو تو اس کی ان خوبیوں کو دیکھے (چہرہ، ہاتھ، پاؤں، قد، رنگ، آنکھیں، نیک عادات وغیرہ) جو اسے اس عورت سے نکاح کرنے کی ترغیب دیں۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ فرماتے ہیں میں نے ایک عورت کو نکاح کا پیغام دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔
هل نظرت اليها؟ قلت لا قال فانظر اليها فانه احری ان يودم بينکما
تو نے اسے دیکھا؟ میں نے عرض کی نہیں۔ فرمایا اسے دیکھ لے کہ یہ طریق تم میں محبت پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ہو گا۔
پھر گواہوں کے رو برو لڑکے سے کہیں کہ فلاں لڑکی کو اتنے حق مہر کے بدلے اپنے نکاح میں قبول کرتے ہو؟ وہ قبول کرے تو خطبہ مسنون پڑھ کر دونوں کے اچھے مستقبل، اتحاد و اتفاق اور حسن معاشرت کی دعا کریں۔ پھر چھوہارے وغیرہ حاضرین پر لٹائیں۔ اگر رخصتی بھی ساتھ ہی کرنی ہے تو بغیر اسراف و تبذیر کے حسب توفیق حاضرین کو دعوت ولیمہ کھلائیں۔ ولیمہ سنت ہے مگر شرط یہ ہے کہ قرض نہ لیں۔ فضول خرچی نہ کریں۔ اور تمیز سے کھانا کھلائیں۔ رزق ضائع نہ کریں۔ غریب لوگوں کو بھی کھانے میں شامل کریں۔
الایم احق بنفسها من وليها والبکر تستاذن فی نفسها و اذنها صحاتها
غیر شادی شدہ عورت اپنے ولی سے زیادہ اپنا اختیار رکھتی ہے اور کنواری سے بھی، اس کے بعد اجازت لی جائے اور اس کی اجازت اس کی خاموشی ہے۔
(مسلم، مشکوة، ص : 270)
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔