جواب:
جی ہاں ساری صحابیات کرام پردہ کیا کرتی تھیں۔ اس میں کوئی شک و شبہ کی بات نہیں ہے۔ قرآن نے تمام مسلمان عورتوں کو پردہ کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ حکم صحابیہ اور غیر صحابیہ تمام مسلمان خواتین کے لیے ہے۔ قرآن میں پردہ کے حوالہ سے ارشاد ربانی ہے ۔
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًاo
(الْأَحْزَاب ، 33 : 59)
اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دیں کہ (باہر نکلتے وقت) اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں، یہ اس بات کے قریب تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں (کہ یہ پاک دامن آزاد عورتیں ہیں) پھر انہیں (آوارہ باندیاں سمجھ کر غلطی سے) ایذاء نہ دی جائے، اور اللہ بڑا بخشنے والا بڑا رحم فرمانے والا ہےo
عورت کے لیے یہ حکم ہے کہ جب بھی وہ گھر سے باہر نکلے باپردہ حالت میں نکلے۔ اسلام نے عورتوں کو کام کرنے کی اجازت دی ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے۔
لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُواْ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ
النساء، 4 : 22
مردوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا اور عورتوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا۔
اس آیت مقدسہ میں واضح بتا دیا کہ عورت کے پاس جو بھی مال و دولت ہو گا وہ اس کی مالک ہے۔ اور مال و دولت تب ہی ہو گا جب وہ کوئی کام یا کاروبار کرے گی۔ شرعی طور عورت کاروبار کر سکتی ہے۔ تجارت وغیرہ یا کسی بھی ادارے میں جاب کر سکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ شرعی پردے اور دائرہ کار میں رہ کر کام کرے۔ جیسے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اپنا کاروبار کیا کرتی تھیں۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ موجودہ دور میں جس طریقے سے عورت کو استعمال کیا جا رہا ہے، اسلام اس کی قطعاً اجازت نہیں دیتا۔ جیسے مختلف اداروں، کمپنیوں، وغیرہ میں ایڈوائزر کے طور پر عورت کو بے پردگی کی حالت میں Reception وغیرہ پر بٹھا دیا جاتا ہے، فون کالز یا کمپیوٹر آپریٹر کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس میں خواتین کی توہین اور ذلت ہے۔ لیکن جہالت کی بناء پر خواتین بھی اسے ماڈرن ازم سمجھتی ہیں۔
مزید مطالعہ
کے لیے یہاں کلک کریں
اسلام میں بیوی پر خاوند کے بارے میں کیا حقوق ہیں؟
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔