جواب:
اس کے تین بنیادی اسباب ہیں۔
1۔ جب احوال و معارف اور نکات کی کثرت ہو گئی تو اب ایک عام آدمی، عام سالک کے لئے دشوار تھا کہ وہ کس راہ پر چلے اور کس راہ کو ترک کرے چنانچہ اس کے لئے ضروری تھا کہ وہ ایک ایسے منظم طریقے کو اپنائے جس کو وہ زیادہ موزوں تصور کرتا ہے اور چونکہ انسانی طبائع میں اختلاف ہے، مثلاً ایک ذکر یا کوئی وظیفہ ایک شخص کو تو فائدہ پہنچاتا ہے مگر وہی ذکر دوسرے شخص کے لئے اتنا مفید نہیں ہوتا، اس لیے اولیاء کرام نے مختلف اوراد، وظائف کو مریدین و متوسلین کی فطری مناسبت کے لحاظ سے یکجا کر دیا کہ ایک جیسی فطری طبیعت کے تقاضے رکھنے والے اگر ان اوراد کو اپنائیں تو اپنے احوال کو پا سکیں اور دوسری فطری طبیعت کے تقاضے رکھنے والے ایسے وظائف کو اپنائیں تو اپنا راستہ تیزی سے طے کر لیں لہٰذا انسانی طبیعتوں کا اختلاف اور مختلف نفوس کے مزاج کا جدا جدا ہونا مختلف سلاسل طریقت کے وجود میں آنے کا ایک سبب بن گیا۔
2۔ راہِ طریقت و تصوف کا سفر کسی صاحب نظر کی صحبت اور کسی سلسلہ کے روحانی فیضان کے بغیر طے نہیں ہو سکتا۔ اس لیے اس روحانی ضرورت کی تکمیل کے لئے بھی بہت سے لوگ از خود روحانی منازل طے کرنے کے لئے مشائخ سے منسلک ہو کر سلسلے قائم کرتے رہے اور یوں مختلف سلاسل وجود میں آتے گئے۔
3۔ سلوک طریقت کی تشکیل کا تیسرا سبب یہ ہے کہ اکثر مشائخ اور بعض قوی روحانی قوت رکھنے والے بزرگوں کے دل پر خصوصی وظائف القاء ہوتے ہیں، قرآن و سنت میں بیان کردہ مفید اذکار یا صحابہ و تابعین کے اشغال میں سے بعض ان پر منکشف ہوئے وہ بطور خاص کسی ذکر یا ورد کو اس روحانی مرض کے ازالے کیلئے مفید پاتے ہیں تو یوں ان اذکار کی تعلیم پانے والے اور اجازت لینے والے اس راہ پر چلنے لگتے ہیں تو ایک تو ان کے لئے راستہ آسان ہوتا ہے اور روحانی الجھن ختم ہوتی ہے اور یوں ایک نیا خانوادہ یا سلسلہ وجود میں آ جاتا ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔