جواب:
کسی کو حلالہ کے لئے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کوئی دوسرا شخص نکاح کرے تو نکاح ہو جاتا ہے پھر اس کی مرضی چاہے تو طلاق دے یا پھر نہ دے، اس سے طلاق کا مطالبہ نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی طلاق دینے کے لیے مجبور کیا سکتا ہے۔ اگر طلاق کے لیے مجبور کیا جائے تو مجبور شخص کی تحریری طور پر طلاق نہیں ہوتی، البتہ اگر زبانی طلاق دے تو ہو جائے گی۔
اگر حلالہ arranged ہوا تو یہ حلال نہیں، حرام ہو گا۔ قرآن مجید نے وہ حرمت مغلظہ جو تین طلاقوں سے پیدا ہوئی، اس کی انتہاء کسی دوسرے سے نکاح و قربت تک قرار دی اور بتایا کہ نکاح وقربت کے بعد اگر دوسرے خاوند نے اسے طلاق دیدی تو تین طلاقوں سے پیدا ہونے والی حرمت ختم ہو جاتی ہے اور عدت گزار کر اپنے سابق شوہر کے ساتھ نکاح کر سکتی ہے جس نے اسے پہلی بار تین طلاقیں دی تھیں۔ کیونکہ نکاح ثانی نے تین طلاقوں سے ہونے والی حرمت ختم کر دی ہے۔ چونکہ نکاح ثانی سے حرمت غلیظہ ختم ہوئی اور حلت جدیدہ پیدا ہو گئی کہ اس عورت کا پہلے خاوند سے نکاح حلال ہو گیا، لہذا اس عمل کو حلالہ کہا گیا ہے۔
حلالہ کوئی پسندیدہ عمل نہیں، بالکل اسی طرح جس طرح طلاق کوئی پسندیدہ عمل نہیں۔ نہ خوشی سے دی جاتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
’’ابغض الحلال الی الله الطلاق‘‘
’’اللہ تعالی کے ہاں حلال وجائز کاموں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ طلاق ہے‘‘۔
ابو داؤد
نیز فرمایا:
’’يا معاذ ما خلق الله شيئا علی وجه الارض احب اليه من العتاق ولا خلق الله شيئا علی وجه الارض ابغض اليه من الطلاق‘‘
’’اے معاذ ! روئے زمین پر اللہ نے کسی مملوک کو آزاد سے بڑھ کر کوئی پسندیدہ چیز پیدا نہیں کی اور اللہ نے روئے زمین پر طلاق سے زیادہ کوئی ناپسندیدہ چیز پیدا نہیں‘‘
(دار قطنی)
معلوم ہو کہ طلاق اللہ کو ناپسند بھی ہے اور حلال بھی۔ کہہ دینے سے واقع ہو جاتی ہے۔ ناپسند فرمانے کے باوجود یہ نہیں فرمایا کہ دینے سے واقع نہ ہو گی۔ یہی حال ہے حلالہ کا، کسی شخص کے لیے یہ امر ہرگز پسندیدہ نہیں کہ وہ اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے۔ پھر وہ عورت عدت گزار کر کسی اور سے شادی وقربت کرے اور پھر وہ دوسرا خاوند اسے طلاق دے اور پہلا خوشی خوشی اس سے دوبارہ نکاح کرے یہ وفا۔ مروت۔ اور غیرت کے خلاف ہے۔ شرم وحیا کے خلاف ہے۔ چنانچہ لوگوں کو یہ بات بار بار سمجھائی جاتی ہے کہ طلاق کا شغل نہ کرو ! بعد میں پریشانیوں کا سامنا ہو گا۔ اگر سمجھتے ہیں کہ پانی سر سے گزر گیا ہے اور بگڑے ہوئے حالات میں میاں بیوی میں اتفاق ناممکن ہو چکا ہے تو شریفانہ انداز سے ایک طلاق دیدیں، تاکہ عدت گزار کر عورت اپنی مرضی سے اپنا مستقبل جس سے چاہے وابستہ کر لے۔ اور خاوند بھی ایسا کر سکے، نصیب دوستاں اگر کوئی صلح کی صورت پیدا ہو گئی تو عدت کے اندر رجوع کرنا اور عدت کے بعد از سر نو نکاح کرنا آسان رہے گا۔ جبکہ تین طلاقوں سے لمبا اور پریشان کن عمل (process) شروع ہو جائے گا۔ جو دونوں کے لیے سخت قبیح وتکلیف دہ ہو گا۔ اب اگر مرد یا عورت کے ناروا رویے کی بناء پر تین طلاقوں کی نوبت آتی ہے تو یہ شرعا ًظلم اور فریقین کے لیے مایوس کن ہو گا۔ لیکن اب بھی فریقین اپنے ناروا رویے پر نادم ہو جائیں اور اپنے بچوں کے مستقبل کی خاطر رجوع اور صلح پر مائل ہوں تو حلالہ کے بغیر چارہ نہیں۔ اور یہ سزا دونوں کے ناروا رویہ کی بناء پر دی گئی ہے تاکہ وہ تین طلاقوں تک بات نہ بڑھائیں اور یہ انتہائی قدم نہ اٹھایا جائے۔ اسی لیے خدائے رحیم نے بطور نصیحت فرمایا، ایک یا دو رجعی طلاق کے بعد یا تو عدت کے اندر اندر رجوع کر کے تعلقات بحال کر لو! یا عدت گزرنے دو، اور عورت کو آزاد ہونے دو تاکہ وہ جہاں چاہے شرعاً نیا نکاح کر لے۔ فرمایا یہ اللہ کی حدیں ہیں۔
فَلاَ تَعْتَدُوهَا
پس تم ان سے آگے مت بڑھو!
یعنی ایک یا دو رجعی سے آگے بڑھ کر تیسری نہ دو!
وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللّهِ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ
البقره 2: 229
اور جو لوگ اﷲ کی حدود سے تجاوز کرتے ہیں سو وہی لوگ ظالم ہیں
مطلب واضح ہے کہ جو شخص شریعت کی پابندی نہیں کرتا۔ اور تیسری طلاق بھی دے دیتا ہے تو اس نے خود اپنی مشکل میں اضافہ کر لیا۔ اور اللہ کی حدوں سے تجاوز کر کے ظلم کیا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’لعن رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم المحلل والمحلل له‘‘
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حلالہ کرنے والے پر بھی لعنت فرمائی اور اس پر بھی جس کے لیے حلالہ کیا گیا‘‘
دارمی۔ ابن ماجہ۔ دارمی نے ابن مسعود سے اور ابن ماجہ نے حضرت علی ابن عباس اور عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہم سے روایت کی۔
(مشکوة ص 284)
اللہ تعالی قرآن سنت کو سمجھنے کی توفیق دے اور جہالت وتعصب سے بچائے، کسی انصاف پسند کے لیے مسئلہ سمجھنے میں ان شاء اللہ رکاوٹ نہیں رہی۔ اللہ تعالی حق کی سمجھ اور اتباع نصیب فرمائے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔