جواب:
معرفتِ ربانی تصوف و طریقت کا تیسرا بنیادی مقصد ہے۔ معرفتِ ربانی میں پہلا مرحلہ اطاعت الٰہی ہے کیونکہ بندہ صحيح معنوں میں اطاعتِ الٰہی کا حق اسی وقت ادا کرسکتا ہے جب اسے اﷲ رب العزت کی معرفت حاصل ہو۔ قرآن مجید نے انسان کی تخلیق کا مقصد ہی ’’معرفت رب‘‘ کو قرار دیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد فرمایا :
وَمَا خَلَقْتُ الْجِِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلاَّ لِيَعْبُدُوْنَO
’’اور میں نے جن و انس کو اس لئے پیدا کیا ہے تاکہ وہ میری عبادت کریںo‘‘
الذريات، 51 : 54
مشہور تابعی ابن جریح رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آیت میں مذکور لفظ لِیَعْبُدُوْنَ کا مفہوم ہے :
’’أيْ يَعْرِفُوْنَ‘‘
’’تاکہ وہ میری معرفت حاصل کریں۔‘‘
قرآن حکیم میں مذکور ہے :
وَإِذَا سَمِعُواْ مَا أُنزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَى أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُواْ مِنَ الْحَقِّ.
’’اور جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نازل کیا گیا ہے تو تو دیکھے گا کہ ان کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں کیونکہ انہوں نے حق کو پہچان لیا ہے۔‘‘
المائده، 5 : 83
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔