جواب:
علماء کا اتفاق ہے کہ جنگ خیبر سے پہلے متعہ حلال تھا پھر جنگ خیبر کے موقع پر متعہ حرام کر دیا گیا۔ پھر فتح مکہ کے موقع پر تین دن کے لیے متعہ حلال کر دیا کیا گیا اور اس کے بعد اس کو دائما حرام قرار دیا گیا۔
متعہ کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حرام قرار نہیں دیا اور نہ ہی آپ کا یہ منصب تھا بلکہ آپ نے متعہ کی حرمت کو واضح کیا تھا۔ کسی بھی حدیث میں یہ نہیں ہے کہ وطن میں متعہ کی اجازت دی گئی ہو۔ بلکہ جنگ کے ایام میں سخت گرمی کی وجہ سے اس کو حلال کیا گیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے بغیر بیویوں کے ان سخت گرم علاقوں میں رہنا مشکل تھا۔ اس لیے مباح قرار دیا گیا تھالیکن اس کے بعد فتح مکہ کے موقع پر قیامت تک کے لیے حرام قرار دیا گیا تھا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ غزوہ تبوک میں گئے ہم تثنیۃ الوداع پر اترے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چراغوں کو دیکھا اور عورتوں کو روتے ہوئے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا یہ کیا ہے؟ بتایا گیا کہ یہ وہ عورتیں ہیں جن سے متعہ کیا گیا تھااور وہ رو رہی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ نکاح، طلاق، عدت، اور میراث نے متعہ کو حرام کر دیا ہے۔
مسند ابو يعلی، رقم الحديث: 6594
حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوہ خیبر کے دن عورتوں سے متعہ اور پالتو گدھوں کے گوشت کو حرام کر دیا
صحيح بخاری، حديث نمبر: 4216
صحيح مسلم، حديث نمبر: 1407
قرآن و حدیث میں نکاح متعہ کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ متعہ خود حضور صلی اللہ علیہ وآّلہ وسلم نے حرام قرار دے دیا۔ لہذا اب اگر کوئی یہ کہے کہ متعہ حلال و جائز ہے یہ کلام اور ہے۔ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا
فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُواْ فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ
(النساء 4 : 03)
جو عورتیں تم کو پسند ہیں ان سے نکاح کرو دو دو سے تین تین سے اور چار چار سے اور اگر تمہیں یہ خدشہ ہو کہ ان کے درمیان انصاف نہیں کر سکو گے تو صرف ایک نکاح کرو یا اپنی کنیزوں پر اکتفا کرو۔
اللہ تعالی نے قضاء شہوت کی صرف دو جائز صورتیں بیان فرمائی ہیں۔ ایک سے چار بیویوں تک نکاح کر سکتے ہیں یا پھر اپنی باندیوں سے نفسانی خواہش پوری کر سکتے ہیں اور بس۔ اگر متعہ بھی قضاء شہوت کی جائز شکل ہوتا تو اللہ تعالی اس کا بھی ان دو صورتوں کے ساتھ ذکر فرماتا۔ اس جگہ متعہ کا بیان نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ جائز نہیں۔ اوائل اسلام سے لےکر فتح مکہ تک متعہ کی جو شکل معمول اور مباح تھی اس آیت کے ذریعے اس کو منسوخ کر دیا گیا۔یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ متعہ میں صرف عیاشی ہے اس میں نہ تو مرد پر عورت کے لیے نان و نفقہ ہوتا ہے اور نہ طلاق نہ عدت اور نہ وہ مرد کی وارث بنے گی، یہ محض صرف عیاشی ہے اور عورت کی حفاظت و عزت صرف نکاح میں ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔