جواب:
1۔ فساد کی جڑ وبنیاد یہی ہے کہ بیوی ساس کے ساتھ نہیں رہ سکتی اس کو الگ گھر چاہیے یہ تو شوہر کے ذمے ہے کہ اس کو ایسی جگہ ٹھہرائے کہ اس میں کسی اور کا عمل دخل نہ ہو لیکن اگر شوہر میں ہمت نہ ہو کہ اس کو الگ گھر میں ٹھہرائے تو اسی مکان کا ایک حصہ اس کے لئے مخصوص کر دیا جائے، وہ اپنا کھانا کھائے، اپنا پکائے، نہ اس کی ذمہ داری کسی پر ہو اور نہ کوئی اس کی ذمہ داری اٹھائے۔
الغرض عورت کا یہ مطالبہ تو بجا ہے کہ مکان کے ایک حصے میں اس کو کھانے اور پینے کا سامان الگ کر دیا جائے۔ یہ شوہر کی استطاعت پر ہے اگر اس کے پاس اتنی گنجائش نہ ہو تو الگ مکان کا مطالبہ نہیں کر سکتی۔
2۔ دوسری بات یہ ہے کہ بیوی کے الگ گھر کے مطالبہ کے اسباب دیکھیں جائیں گے اگر بیوی کو شوہر کے والدین کے گھر میں تحفظ نہیں ہے، یا اس کو بلا وجہ تنگ کیا جاتا ہو تو مجبوری کی حالت میں الگ مکان کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ بیوی کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے ساس سسر کو اپنے والدین سمجھے اور شوہر کے بہن بھائیوں کو اپنا بہن بھائی سمجھے اگر بیوی ایسا کرے اور خاوند کے گھر والے بھی اس کو اپنی بیٹی اور بہن سمجھیں تو یہ فتنہ وفساد پیدا ہی نہ ہو۔
3۔ شوہر جہاں مناسب زیادہ مناسب سمجھتا ہے اپنی بیوی کو رکھے گا۔ اگر شوہر سمجھتا ہے کہ اس کی بیوی کی عزت وعصمت کا زیادہ تحفظ اس کے والدین کے گھر میں ہے اور بیوی کے سارے حقوق پورے کر رہا ہے تو ایسی صورت میں بیوی الگ گھر کا مطالبہ نہیں کر سکتی۔
4۔ اس کے علاوہ معاشرے کے اندر ایک اہم بات جو قابل غور ہے وہ یہ کہ اکثر اوقات بیوی اپنے شوہر سے صرف اس لئے الگ گھر کا مطالبہ کرتی ہے تاکہ وہ اپنے دوست واحباب کو دعوت دے سکے، وہ ہر وقت آزاد گھوم پھر سکے گویا وہ غلط مقاصد کے تحت الگ گھر کا مطالبہ کرتی ہے کیونکہ وہ اپنے یہ غلط مقاصد اپنے خاوند کے والدین کی موجودگی میں پورے نہیں کر سکتی۔ یہ حرام ہے۔ لہذا خاوند جہاں مناسب سمجھے اپنی بیوی کو رکھ سکتا ہے، بیوی بغیر کسی شرعی عذر کے الگ گھر کا مطالبہ نہیں کر سکتی۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔