سوال نمبر:1747
کیا عشر ، زکوۃ یا صدقہ، خیرات لینے والا شخص اور حجام امامت کروا سکتے ہیں؟ ان میں کوئی بھی شخص مستقل طور پر کسی مسجد کا امام ہو تو اس میں کوئی شرعی ممانعت تو نہیں؟ دیہات میں یہ تاثر عام ہے کہ عشر، زکوہ یا صدقہ خیرات لینے والا شخص امامت نہیں کرو اسکتا۔ ایک مسجد میں تو نمازیوں نے محض اس وجہ سے امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھنے سے بھی انکار کر دیا کہ عشر، زکوۃ اور صدقہ خیرات لینے والا شخص امام تھا، اس دن مسجد کے مستقل امام صاحب کسی وجہ سے امامت کے لیے نہیں پہنچ سکے اور نمازیوں نے عارضی طور پر محض ایک نماز کے لیے بھی عشر، زکوہ لینے والے شخص کی امامت کو قبول نہیں کیا۔ حالانکہ یہی شخص اسی مسجد کے موذن بھی ہیں۔ اس پر شرعی رہنمائی فرمائیں۔
- سائل: محمد نواز شریفمقام: الہ آباد، ٹھینگ موڑ، ضلع قصور
- تاریخ اشاعت: 27 اپریل 2012ء
جواب:
اگر وہ شخص واقعی عشر، زکوٰۃ یا صدقہ خیرات لینے کا حقدار ہے تو کوئی حرج نہیں،
لے سکتا ہے اور امامت بھی کروا سکتا ہے، اس میں کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے۔ امامت
کے لیے سنی صحیح العقیدہ اور بنیادی دینی مسائل کا جاننے والا ہونا ضروری ہے، نہ کہ
دولت مند، اَن پڑھ جاہل ہونا۔
باقی رہا حجام تو اس میں بھی کوئی شرعی ممانعت نہیں جو امامت کے مانع ہو۔ جو اس
کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے، یہ ان کی جہالت ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔