جواب:
اللہ تعالی نے روحوں کو اپنی مرضی سے تقسیم فرمایا ہے نہ کہ روحوں کی فرضی سے۔ کوئی بھی بچہ نہ تو کافر پیدا ہوتا ہے نہ یہودی وعیسائی اور نہ ہی مجوسی۔ اللہ تعالی ہر بچے کو فطرت سلیمہ پر پیدا کرتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
کل مولود يولد علی الفطرة فأبوه يهوانی أو ينصرانه أو لمجسانه.
صحيح بخاری حديث نمبر 1319
ہر بچہ فظرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اسے یہودی، عیسائی اور مجوسی بنا دیتے ہیں۔
اس لئے ہر بچہ پیدائش کے وقت اپنی فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے۔ نہ وہ کافر ہوتا ہے نہ یہودی وعیسائی، بلوغت سے پہلے پہلے وہ کسی بھی چیز کا مکلف نہیں ہوتا۔ جب وہ بڑا ہو جاتا ہے، عاقل بالغ ہو جاتا ہے اور ذی شعور ہو جاتا ہے تو اس کی مرضی ہوتی ہے، چاہے وہ عیسائیت کو قبول کر لے یا ہندومت کو یا یہودیت کو، اس کو کافر، عیسائی یا یہودی اس کے والدین بناتے ہیں اور اس کو ایسا ماحول فراہم کرتے ہیں ،اللہ تعالی نہیں ایسا نہیں کرتا۔
پھر بڑے ہو کر اس کے پاس اختیار ہوتا ہے، عقل وشعور کی نعمت ہوتی ہے، وہ اچھائی اور برائی میں تمیز کر سکتا ہے۔ اب اس کی مرضی جو چاہے وہ کرے۔
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا :
فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ.
(الْكَهْف ، 18 : 29)
پس جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کردے،
وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ.
(الْبَلَد ، 90 : 10)
اور ہم نے اسے (خیر و شر کے) دو نمایاں راستے (بھی) دکھا دیئے
لہذا روحوں کی اپنی کوئی مرضی نہیں ہوتی، ہر روح کو اللہ تعالی ہی جہاں چاہتا ہے اس کے جسم میں ڈال دیتا ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔