جواب:
تصوف اور طریقت دونوں ہم معنی ہیں، مترادف حکمات ہیں ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ قرآن وحدیث میں ان کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ بے شمار آیات میں تصوف وطریقت کو بیان کیا گیا ہے اسی طرح بے شمار احادیث میں بھی تصوف وطریقت کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔
تصوف سے مراد صفائی وپاکیزگی ہے۔ مزید اس سے مراد کسی شے کو ہرطرح کی ظاہری وباطنی آلودگی سے پاک صاف کر کے اجلا اور شفاف بنا دینا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے بے شمار معانی ہیں۔ جن کا لب لباب اور خلاصہ ونچور ایک جیسا ہے۔
تصوف تزکیہ نفس اور قلب وباطن کی صفا وجلا کا نام ہے۔ اسی طرح دین کا ایک ظاہر ہوتا ہے اور ایک باطن، دین کے ظاہر کو شریعت کہتے ہیں اور دین کے باطن کو طریقت کہتے ہیں۔ اسی طرح شریعت کے علم کو علم الفقہ کہتے ہیں اور طریقت کے علم کو علم التصوف وعلم الاخلاق کہتے ہیں۔ قرآن میں ارشاد باری تعالی ہے۔
يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ
(الْبَقَرَة، 2 : 151)
جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں (نفسًا و قلبًا) پاک صاف کرتا ہے اور تمہیں کتاب کی تعلیم دیتا ہے
یہاں آیات اور کتاب کے علم سے مراد ظاہری علم ہے اور یزکیہم سے مراد تزکیہ ہے اور یہی تصوف وطریقت ہے۔ اسی طرح حدیث جبریل میں ارشاد فرمایا گیا۔ اسلام، ایمان اور احسان کے بارے میں، ایمان سے مراد علم العقیدہ، اسلام سے مراد علم الفقہ اور احسان سے مراد علم التصوف والطریقت ہے۔
(متفق عليه)
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔