جواب:
بطور دعا جائز ہے بطور قرات جائز نہیں ہے۔
احناف کے نزدیک نماز جنازہ دراصل ایک دعا مغفرت ہے۔ عمومی مفہوم اور عرف شرع میں نماز نہیں، اس لئے اس میں وہ فرائض نہیں جو ہر نماز میں ہوتے ہیں۔ مثلا رکوع، سجدہ، جلسہ، قعدہ، تشہد ہر نماز میں ہیں۔ مگر اس میں نہیں۔ یونہی فرض نماز کے لئے وقت مقرر ہے مگر اس کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں۔ ہر نماز فرض عین ہے کہ ہر مکلف پر لازم ہے مگر یہ فرض کفایہ ہے ہر ایک پر فرض نہیں بعض کے ادا کرنے سے مقصد حاصل ہو جاتا ہے باقی گنہگار نہیں ہوتے۔ اسی طرح باقی نمازوں میں فاتحہ واجب اور قرات فرض ہوتی ہے مگر اس میں نہ فاتحہ واجب ہے نہ قرات فرض۔ پس نماز جنازہ معروف معنوں میں دوسری نمازوں کی طرح نماز نہیں، محض میت یا دوسروں کے لئے دعائے مغفرت ہے۔ گو اس پر بھی فارسی اردو میں نماز کا لفظ بولا جاتا ہے۔ محض جزوی مشابہت کی بناء پر۔ اگر بطور قرات نہیں بطور دعاء اس میں فاتحہ پڑھی جائے۔ تو ائمہ احناف کے نزدیک بالکل جائز ہے اور شرعی طریقہ ہے۔ لیکن جس طرح فاتحہ پڑھنا شرعی طریقہ ہے اسی طرح نہ پڑھنا بھی شرعی طریقہ ہے لہذا ایک پر زور دینا اور دوسرے کو ناجائز کہنا درست نہیں۔ ترجیحات میں فرق ہو سکتا ہے۔ احناف نے پرزور دلائل سے فاتحہ بطور قرات کی مخالفت کی ہے۔ بطور دعاء کے مخالفت نہیں کی۔
ترمذی، ابوداؤد اور ابن ماجہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے۔
ان النبی صلی الله عليه وآله وسلم قراء علی الجنازه بفاتحه الکتاب
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنازہ پر فاتحہ پڑھی تھی"۔
لیکن یہ حدیث مجمل ہے۔ اس میں یہ وضاحت نہیں کہ فاتحہ نماز جنازہ کے اندر پڑھی تھی، یا پہلے یا بعد میں۔ حالانکہ نزاع نماز جنازہ کے اندر فاتحہ پڑھنے کا تھا۔ دعوی خاص تھا دلیل عام۔ جو درست نہیں اس لئے امام بخاری ومسلم نے اسے ذکر نہیں کیا۔ حالانکہ وہ ایسی چیز کی تلاش میں رہتے ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نماز جنازہ کی جو صورت نقل فرمائی ہے، اس میں عمومی دعاء مغفرت :
اللهم اغفر لحينا وميتنا. الخ
کا ذکر نہیں۔
(مستدرک حاکم ص 358 ج 1 مع التلخيص للذهبی طبع بيروت)
امام مسلم اور بخاری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نماز جنازہ کے بارے میں جو نقل کیا ہے اسے بھی دیکھ لیں۔ امام بخاری فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز جنازہ کا نام صلاۃ نماز رکھا
ليس فيها رکوع ولا سجود ولا يتکلم فيها، وفيها تکبير وتسليم"
اس میں نہ رکوع، نہ سجدہ، نہ بات چیت کی جا سکتی ہے، اللہ اکبر کہنا اور سلام پھیرنا ہے"
حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں۔
يکبر بالليل والنهار والسفر والحضرا اربعا"
رات ہو، دن ہو، سفر ہو حضر ہو چار تکبیر پڑھنا ہے"
(صحيح بخاری ص 176، 177 ج 1،
صحيح مسلم 309
امام عبد الرزاق بن همام، الصف ص 483 ج 3
موطا امام مالک میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں ہے۔
عن نافع ابن عمر کان لا يقرا فی الصلاه علی الجنازه ويصلی بعد التکبيره الثانيه کما يصلی فی التشهد و هو الاولی و يدعو فی الثالثه. الميت و لنفسه والابويه وللمسلمين"
حضرت عبداللہ بن عمر نماز جنازہ میں قرآن نہیں پڑھتے تھے۔ دوسری تکبیر کے بعد درود شریف پڑھتے تھے جو تشہد میں پڑھا جاتا ہے۔ یہی بہتر ہے۔ تیسری تکبیر میں میت کے لئے، اپنے لئے، اپنے والدین اور تمام مسلمانوں کے لئے دعائے مغفرت مانگتے تھے"۔
(فتح القدير ص 78 ج 2)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس دن حبشہ کے بادشاہ نجاشی (جن کا اصل نام اصحمہ تھا) جو مسلمان تھے ان کی وفات ہوئی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام کو ان کی وفات کی خبر دی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام کے ساتھ جنازہ گاہ کی طرف گئے چار تکبیر کے ساتھ نماز جنازہ پڑھی۔
ان النبی صلی الله عليه وآله وسلم نعی للناس ان نجاشی اليوم الذی مات فيه وخرج بهم الی مصلی فصف بهم وکبر اربع تکبيرات.
(متفق عليه)
پس جس طرح جنازے کے موقع پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق فاتحہ پڑھا اسلامی طریقہ ہے اسی طرح بقیہ صحابہ کرام مثلا ابو ہریرہ وغیرہ کی روایت کے مطابق فاتحہ نہ پڑھنا بھی سنت دے سکتا ہے۔ پس کوئی فریق دوسرے کو الزام نہیں دے سکتا اور اس مسئلہ کی بنیاد پر دنگا فساد کرنا حرام ہے"
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔