جواب:
معاوضہ دینی کاموں کا نہیں لیا جاتا، بلکہ پابندی وقت کا لیا جاتا ہے۔ اگر اتنا وقت روزی کمانے کے لئے لگایا جائے تو روزی کما سکتا ہے۔ لیکن مذہبی امور کی انجام دہی مسئلہ بن جائے گی۔ نہ وقت پر اذان، نہ نماز، نہ مسجد کی صفائی، نہ کھولنے اوربند کرنے اور دیگر اشیاء کی حفاظت ہو سکے گی۔ اب جو شخص ان تمام امور کو پابندی سے ادا کرے گا وہ اکثر معاش کمانے کے لئے معقول بندوبست نہیں کر سکتا۔ حالانکہ اس پر اپنا، اپنے والدین، بیوی بچے اور دیگر زیر کفالت افراد کا نان و نفقہ اور ضروریات زندگی مہیا کرنا بھی فرض ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد، آپ کے جانشین، خلیفہ اول اور مسلمانوں کے پہلے منتخب حکمرانوں، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جب یہ معاشی مسئلہ پیش ہوا، تو محدثین کرام کی زبانی مسئلہ اور اس کا جمہوری اسلامی حل سن لیجئے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ منتخب ہوئے، فرمانے لگے، میری قوم کو معلوم ہے کہ میرا کاروبار، میرے اہل وعیال کا خرچہ بخوبی پورا کرتا ہے۔ اور اب میں مسلمانوں کے معاملات میں مصروف ہو گیا ہوں، اب ابوبکر کے اہل و عیال اس مال (بیت المال) سے کھائیں گے اور وہ مسلمانوں کے امور نمٹائیں گے۔
(صحيح بخاری، ص : 278 ج : 1)
پس آج بھی دینی فرائض انجام دینے والے مسلمانوں کے دینی امور نمٹا رہے ہیں۔ اور اس وقت کا حق الخدمت لے رہے ہیں۔ علامہ شامی فرماتے ہیں۔
ان المتقدمين منعوا اخذا الاجره علی الطاعات، وافتی المتاخرون بجواز علی التعليم والامامة. کان مذهب المتاخرين هو المفتی به.
متقدمین علماء نے عبادات پر اجرت لینے کو منع کیا، اور متاخرین علماء نے تعلیم وامامت پر اجرت جائز ہونے کا فتوی دیا ہے۔۔۔ اور فتوی متاخرین کے مذہب پر دیا جاتا ہے۔
(رد المختار شامی، ص : 417 ج : 4 طبع کراچی)
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔