جواب:
آپ نے نکاح کے وقت اپنی عمر نہیں بتائی، بعض ائمہ کے نزدیک نابالغ کا نکاح اگر اس کا باپ یا دادا کر دیں تو بالغ ہونے کے بعد اس نکاح کو توڑا نہیں جا سکتا۔ یہ ہر حال میں برقرار رہے گا۔ لیکن اگر اس نکاح کو کرنے والوں سے حماقت، جہالت یا لالچ ثابت ہو جائے تو یہ نکاح نہیں ہوتا۔
آپ کے سوال کے مطابق جیسا آپ نے بتایا، یہ نکاح نہیں ہوا۔ اگر نکاح کے وقت آپ بالغ تھیں تو پھر یہ نکاح بالکل نہیں ہوا۔ کیونکہ بالغ لڑکے یا لڑکی کا نکاح ان کی مرضی کے بغیر نہیں کیا جا سکتا اور اگر آپ نابالغ تھیں تب بھی یہ نکاح شرعاً نہیں ہوا۔ کیونکہ اس نکاح میں بھی آپ کے والد سے جہالت اور حماقت ثابت ہوتی ہے، جو آپس میں لڑائی جھگڑے اور فتنہ فساد کی شکل میں ظاہر ہے۔ لہذا آپ شرعی طور پر آزاد ہیں، آپ کا یہ نکاح نہیں ہوا۔ آپ جب چاہیں جس سے چاہیں اپنی مرضی سے نکاح کر سکتی ہیں۔
(الشامی)
بالغ لڑکا یا لڑکی خود مختار ہوتے ہیں، وہ اپنا نکاح اپنی پسند اور مرضی سے کر سکتے ہیں، قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ
ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لئے پسندیدہ اور حلال ہوں،
(النِّسَآء ، 4 : 3)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
لا تنکح الايم حتی تستامر ولا تنکح البکر حتی تستاذن.
(متفق عليه)
غیر شادی شدہ عورت کا اور بالغ لڑکی کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے۔
ایک صحابیہ حضرت خنساء بنت حذام تھیں، ان کے والد نے ان کا نکاح کردیا۔ ان کو یہ پسند نہ تھا۔ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا یہ نکاح رد کر دیا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک کنواری لڑکی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوئی اور عرض کی کہ میرے باپ نے میری ناپسندیدگی کے باوجود میرا نکاح کر دیا ہے، تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اختیار دے دیا کہ اسے منظور کر لے یا رد کر دے۔
لہذا قرآن و حدیث کی روشنی میں آپ کا نکاح سرے سے ہوا ہی نہیں، آپ شرعاً و قانوناً آزاد ہیں۔ آپ اپنی مرضی سے جب چاہیں نکاح کر سکتی ہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔