جواب:
سید زادے اگر شریعت کے مطابق اپنی زندگیاں بسر کریں گے تو واقعی دوزخ کی آگ ان پر حرام ہوگی اور اگر اس کے برعکس کیا اور اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈالا اور نیک اعمال نہ کیے تو دوزخ کی آگ حلال ہوگی۔
سید زادوں سے اگر آپ کی مراد وہ لوگ ہیں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نسبی رشتہ دار ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل ہیں تو قانون شریعت میں سب برابر ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل ہو یا کوئی اور شخص، اسلام کے قانون سے کوئی بھی مستثنی نہیں ہے، جو شخص جرم کرے گا، اسے اس کی سزا ضرور ملے گی۔ اسلام نے تو ایسے سب فرق مٹا دیئے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ اگر کوئی آل نبی میں سے جرم کرے تو اسے سزا نہ ملے اور اگر وہی جرم کوئی اور مسلمان کرے تو اسے سزا ملے۔ اگر ایسا ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی بھی یہ نہ فرماتے جیسا کہ ہمیں اس واقعہ میں ملتا ہے، جب ایک فاطمہ نامی انصاری عورت نے چوری کی اور وہ اس وقت کا بڑا اور معزز قبیلہ تھا، وہ عورت امیر بھی تھی، جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا تو اس کی سزا میں تخفیف کی سفارش کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ کی قسم اگر اس کی جگہ فاطمہ بنت محمد بھی ہوتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ یہی سزا فاطمہ بنت محمد کے لیے بھی ہوتی۔
اگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی، آپ کا لخت جگر اگر ایسا کام کرتی تو اس کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سزا دیتے۔ اس کے لیے بھی وہی قانون ہوتا جو دوسروں کے لیے ہے تو پھر کیسے ممکن ہے کہ اگر کوئی آل رسول میں سے کوئی جرم کرے اور اس کو سزا نہ ملے؟
اسلام کی ایسی کوئی تعلیمات نہیں ہیں، قرآن و حدیث میں ایسا کوئی ذکر نہیں ہے کہ جس میں اگر کوئی جرم آل رسول سے سرزد ہو تو اسے استثناء حاصل ہو، اسلام کی نظر میں سب برابر ہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔