جواب:
قدرت نے مرد اور عورت میں بعض اوصاف مساوی رکھے ہیں اور بعض میں فرق رکھا ہے، چونکہ اسلام دین فطرت ہے۔ اس لئے اس کے احکام میں بھی بعض میں مساوات اور بعض میں فرق رکھا ہے۔ جہاں جہاں فرق ہر ایک کو نظر آتا ہے، اس بارے ہر سلیم الفطرت آدمی سمجھتا ہے کہ اس سے بہتر صورت ممکن نہ تھی۔
المرأة ترفع يديها حذاء منکبيها، وهو الصحيح لأنه أسترلها.
ابن همام، فتح القدير، 1 : 246
’’تکبیر تحریمہ کے وقت، عورت کندھوں کے برابر اپنے ہاتھ اٹھائے یہ صحیح تر ہے کیونکہ اس میں اس کی زیادہ پردہ پوشی ہے۔‘‘
فإن کانت إمرأة جلست علی إليتهاالأيسری و أخرجت رجليها من الجانب الأيمن لأنه أسترلها.
ابن همام، فتح القدير، 1 : 274
’’اگر عورت نماز ادا کر رہی ہے تو اپنے بائیں سرین پر بیٹھے اور دونوں پاؤں دائیں طرف باہر نکالے کہ اس میں اس کا ستر زیادہ ہے۔‘‘
والمرأة تنخفض فی سجودها و تلزق بطنها بفخذ يها لأن ذلک أسترلها.
مرغينانی، هدايه،1 : 50
’’عورت اپنے سجدے میں بازو بند رکھے اور اپنے پیٹ کو اپنی رانوں سے ملا دے کیونکہ یہ صورت اس کے لئے زیادہ پردہ والی ہے۔‘‘
علامہ کاسانی حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
فأما المرأة فينبغی أن تفترش زرا عيها و تنخفض ولا تنتصب کإنتصاب الرجل و تلزق بطنها بفخذيها لأن ذلک أسترلها.
الکاسانی، بدائع الصنائع، 1 : 210
’’عورت کو چاہیے اپنے بازو بچھا دے اور سکڑ جائے اور مردوں کی طرح کھل کر نہ رہے اور اپنا پیٹ اپنے رانوں سے چمٹائے رکھے کہ یہ اس کے لئے زیادہ ستر والی صورت ہے۔‘‘
علامہ شامی لکھتے ہیں کہ
انها تخالف الرجل فی مسائل کثيرة.
’’عورت کئ مسائل(چند) میں مرد کے خلاف ہے۔‘‘
شامی، ردالمختار، 1 : 506
والمرأة الاتجافی رکوعها وسجودها وتقعد علی رجليها وفی السجده تفترش بطنها علی فخذيها.
شيخ نظام الدين وجماعة علماء هند، عالمگيری، 1 : 75
’’عورت رکوع اور سجدہ میں اعضاء کھول کر نہ رکھے، پاؤں پر بیٹھے، سجدہ میں اپنا پیٹ رانوں پر رکھے۔‘‘
والمرأة تنحنی فی الرکوع يسيرا ولا تعتمد ولا تفرج أصابعها ولکن تضم يديها وتضع علي رکبتيها وضعا وتنحنی رکبتيها ولا تجافی عضد تيها.
شيخ نظام الدين وجماعة علماء هند، عالمگيری، 1 : 74
’’عورت رکوع میں کم جھکے، ٹیک نہ لگائے نہ انگلیاں کھلی رکھے، ہاتھوں کو بند رکھے اور گھٹنوں پر ہاتھ جما کر رکھے، گھٹنوں کو ٹیڑھا رکھے اور بازو دور نہ رکھے۔
عن علی رضی الله عنه قال اذا سجدت المرأة فلتحتفر ولتضم فخذيها.
ابن ابي شيبه، المصنف، 1 : 241، الرقم : 2777
’’حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے جب عورت سجدہ کرے تو سمٹ کر کرے اور اپنی ران (پیٹ اور پنڈلیوں) سے ملائے رکھے۔‘‘
عن ابن عباس أنه سئل عن صلاة المرأة فقال تجتمع وتحتفر.
ابن ابی شيبه، المصنف، 1 : 241، الرقم : 2778
’’ابن عباس سے عورت کی نماز کے بارے میں پوچھا گیا، انہوں نے فرمایا جسم کوسکیٹر کر اور سمٹا کر نماز ادا کرے۔‘‘
عن مغيرة عن ابراهيم قال إذا سجدت المرأة فلتضم فخذيها والتضع بطنها عليها.
ابن ابی شيبه، المصنف، 1 : 242، الرقم : 2779
’’جب عورت سجدہ کرتے تو اپنے ران جوڑ کر اپنا پیٹ ان پر رکھے۔‘‘
عن مجاهد أنه کان يکره أن يضع الرجل بطنه علی فخذيه إذا سجد کما تضع المرأة.
ابن ابی شيبه، المصنف، 1 : 242، الرقم : 2780
’’(ابن عباس کے شاگرد) مجاہد کہتے ہیں مرد سجدہ میں اپنا پیٹ عورتوں کی طرح رانوں پر رکھے، یہ مکروہ ہے۔‘‘
عن الحسن (البصری) قال المرأة تضم فی السجود.
ابن ابی شيبه، المصنف، 1 : 242، الرقم : 2781
’’عورت سجدہ میں سمٹ جڑ کر رہے۔‘‘
عن إبراهيم قال إذا سجدت المرأة فلتلزق بطنها بفخذيها ولا ترفع عجيزتها ولا تجا فی کما يجافی الرجل.
ابن ابی شيبه، المصنف،1 : 242، الرقم : 2782
’’جب عورت سجدہ کرے تو پیٹ اپنے زانوؤں سے ملائے اور اپنی پیٹھ (سرین) مرد کی طرح بلند نہ کرے۔‘‘
عن خالد بن اللجلاج قال کن النسآء يؤمرن أن يتربعن إذا جلسن فی الصلوة ولا يجلسن جلوس الرجل علی أور اکهن يتقی علی ذلک علی المرأة مخافة أن يکون منها الشی…
ابن ابی شبيه، المصنف، 1 : 242، الرقم : 2783
’’عورتوں کو نماز میں چوکڑی بھر کر (مربع شکل میں) بیٹھنے کا حکم تھا اور یہ کہ وہ مردوں کی طرح سرینوں کے بل نہ بیٹھیں تاکہ اس میں ان کی پردہ پوشی کھلنے کا ڈر نہ رہے۔‘‘
عن نافع ان صفية کانت تصلی وهی متربعة.
ابن ابی شبيه، المصنف،1 : 242، الرقم : 2784
’’نافع سے روایت ہے حضرت سیدہ صفیہ نماز میں مربع شکل میں بیٹھا کرتی تھیں۔‘‘
قال إبراهيم النخعی کانت المرأة تؤمر إذا سجدت أن تلزق بطنها بفخذيها کيلا ترتفع عجيزتها ولا تجا فی کما يجا فی الرجل.
بيهقی، السنن الکبری، 2 : 223
’’ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کہتے ہیں عورت کو حکم تھا یہ سجدہ کرتے وقت اپنا پیٹ رانوں سے ملائے رکھے تاکہ اس کی پیٹھ بلند نہ ہو۔ اس طرح بازو اور ران نہ کھولے جیسے مرد۔‘‘
قال علی رضی الله عنه إذا سجدت المرأة فلتضم فخذيها.
بيهقی، السنن الکبری، 2 : 222، الرقم : 3014
’’حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا عورت سجدہ میں سکڑ کر رہے اعضاء کو ملا کر رکھے۔‘‘
عن ابی سعيد الخدری صاحب رسول اﷲ عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم أنه قال خير صفوف الرجال الاول و خير صفوف النساء الصف الأخر وکان يامر الرجال أن يتجا فوا فی سجودهم يأمر النسآء أن ينخفضن فی سجود هن وکان يأمر الرجال أن يفر شوا اليسریٰ وينصبوا اليمنی فی التشهدو يأمر النسآء أن يتربعن وقال يا معشر النسآء لا ترفعن أبصار کن فی صلاتکن تنظرن إلی عورات الرجال.
بيهقی، السنن الکبری،2 : 222، الرقم : 3014
’’ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نماز میں مردوں کی سب سے بہتر صف پہلی عورتوں کی سب سے بہتر صف آخری ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سرکار مردوں کو نماز میں سجدہ کے دوران کھل کھلا کر رہنے کی تلقین فرماتے اور عورتوں کو سجدوں میں سمٹ سمٹا کر رہنے کی۔ مردوں کو حکم فرماتے کہ تشہد میں بایاں پاؤں بچھائیں اور دایاں کھڑا رکھیں اور عورتوں کو مربع شکل میں بیٹھنے کا حکم دیتے اور فرمایا عورتو! نماز کے دوران نظریں اٹھا کر مردوں کے ستر نہ دیکھنا۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إذا جلست المرأة فی الصلاة وضعت فخذها علی فخذها الاخریٰ و إذا سجدت الصقت بطنها فی فخذيها کأستر مايکون لها وإن اﷲ تعالی ينظر إليها ويقول يا ملآ ئکتی أشهد کم إنی قد غفرت لها.
بيهقی، السنن الکبری، 2 : 222، الرقم : 3014
’’جب عورت نماز میں اپنا ایک ران دوسرے ران پر رکھ کر بیٹھتی ہے اور دوران سجدہ اپنا پیٹ رانوں سے جوڑ لیتی ہے جیسے اس کے لئے زیادہ ستر والی صورت ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف دیکھ کر فرماتا ہے میرے فرشتو! میں تمہیں گواہ بنا کر اس کی بخشش کا اعلان کرتا ہوں۔‘‘
عن يزيد بن أبی حبيب أن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم مر علی إمرأتين تصليان فقال إذا سجدتما فضمّا بعض اللحم إلی الأرض فإن المرأة ليست فی ذلک کالر جل.
بيهقی، السنن الکبری، 2 : 223، الرقم : 3016
’’یزید بن ابی حبیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھنے والی دو عورتوں کے پاس سے گزرے۔ فرمایا جب تم سجدہ میں جاؤ تو گوشت کا کچھ حصہ زمین سے ملا کر رکھا کرو! عورت مرد کی طرح نہیں۔‘‘
قلت لعطاء التشير المرأة بيديها کالر جال بالتکبير؟ قال لا ترفع بذلک يديها کالر جال وأشار أفخفض يديه جدا وجمعهما إليه وقال إن للمرأة هية ليست للرجل.
عبدالرزاق، المصنف، 3 : 137، الرقم : 5066
’’میں نے عطا سے پوچھا کہ عورت تکبیر کہتے وقت مردوں کی طرح ہاتھوں سے اشارہ کرے گی؟ انہوں نے کہا عورت تکبیر تحریمہ کے وقت مردوں کی طرح ہاتھ نہیں اٹھائے گی، اشارہ سے بتایا عطاء نے اپنے ہاتھ بہت نیچے کئے اور اپنے ساتھ ملائے اور فرمایا عورت کی صورت مرد جیسی نہیں۔‘‘
عطا کہتے ہیں
تجمع المراة يديها فی قيامهاما استطاعت
’’عورت کھڑے ہوتے وقت نماز میں جہاں تک ہوسکے ہاتھ جسم سے ملا کر رکھے۔‘‘
عبدالرزاق، المصنفً، 3 : 137، الرقم : 5067
حسن بصری اور قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں
إذا سجدت المرأة فأنها تنفم ما استطاعت ولا تتجافی لکی لا ترفع عجيز تها.
عبدالرزاق، المصنف،3 : 137، الرقم : 5068
جب عورت سجدہ کرے تو جتنا ہو سکے سمٹ جائے اعضاء کو جدا نہ کرے مبادا جسم کا پچھلا حصّہ بلند ہو جائے۔
کانت تؤمر المرأة ان تضع زراعيها بطنها علی فخذيها إذا سجدت ولا تتجا فی کما يتجا فی الرجل. لکی لا ترفع عجيز تها.
عبدالرزاق، المصنفً، 3 : 138، الرقم : 5071
’’عورت کو حکم دیا گیا ہے کہ سجدہ کرتے وقت اپنے بازو اور پیٹ رانوں پر رکھے اور مرد کی طرح کھلا نہ رکھے تاکہ اس کا پچھلا حصہ بلند نہ ہو۔‘‘
عن علی قال إذا سجدت المرأة فلتحتفر ولتلصق فخذ يها ببطنها.
عبدالرزاق، المصنفً، 3 : 138، الرقم : 5072
’’حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے جب عورت سجدہ کرے تو سمٹ جائے اور اپنے ران اپنے پیٹ سے ملائے۔‘‘
عن نافع قال کانت صفية بنت أبی عبيد إذا جلست فی مثنی أوأربع تربعت.
عبدالرزاق، المصنفً، 3 : 138، الرقم : 5074
صفیہ بنت ابوعبید جب دو یا چار رکعت والی نماز میںبیٹھتیں مربع ہو کر بیٹھیتں۔
عن قتاده قال جلوس المرأة بين السجدتين متورکة علی شقها الأيسر وجلوسها تشهد متربعة.
عبدالرزاق، المصنف، 3 : 139، الرقم : 5075
’’عورت دو سجدوں کے درمیان بائیں طرف سرینوں کے بل بیٹھے اور تشہد کے لئے مربع صورت میں۔‘‘
پس عورت اور مرد مسلمان کی نماز کی ادائیگی میں کھڑا ہونے، رکوع و سجود اور بیٹھنے میں شرعاً فرق ہے۔ ہر چند کہ ایسا کرنا فرض و واجب میں شامل نہیں۔ تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام و تابعین، محدثین، فقہائے امت سے جب معتبر کتابوں کے حوالہ سے یہ فرق ثابت ہے اور امام بخاری و مسلم اور دیگر محدثین کے استاذ امام الحدثین حضرت امام عبد الرزاق اور دوسرے اکابر محدثین و فقہائے امت کی تصریحات، روایات تحقیقات سے بھی یہ فرق ثابت ہو رہا ہے۔ عقل و نقل کی رو سے یہ فرق ثابت ہے تو اس پر عمل کرتے رہیں۔ یہی راہ مستقیم و ہدایت حق ہے۔
شریعت کا منشاء یہی ہے اور یہ عورت کے وقار، عزت، احترام اور سترکا تقاضا بھی ہے۔ یہی اسلامی طریقہ ہے، مرد اور عورت کی نماز میں یہ فرق نہایت مناسب اور معنوی ہے۔ اسلام نے عورت اور مرد کی خصوصیات کا ہر جگہ خیال و لحاظ رکھا ہے۔ ان کی خلاف ورزی اور وہ بھی بلا دلیل شرعی مسلمان کا کام نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صراط مستقیم دکھائے، سمجھائے اور اس پر چلائے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔