جواب:
شرعی حدود میں رہ کر مزاح کرنا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ کتب احادیث میں ایسے مزاح کا باقاعدہ ذکر آیا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کے ساتھ بعض اوقات مزاح فرمایا کرتے تھے۔
البتہ حدیث میں جو مسخرے پن سے لوگوں کو ہنسانے والے کے لیے جہنم کی وعید آئی ہے، وہ ایسے مذاق اور ایسے کلام اور مسخرے پن کے بارے میں ہے جو غیر حقیقت پسندانہ ہو، جس میں بے گناہ کی تحقیر و تذلیل کی جاتی ہو، دوسروں کی عیب جوئی کی جاتی ہو۔ جھوٹ بولا جاتا ہو، ایک دوسرے کی برائیاں بیان کی جاتی ہوں۔ یہ ساری چیزیں اسلام میں حرام ہیں اور حدیث کے اندر وعید ایسے لوگوں کے بارے میں آئی ہے۔
حضور علیہ السلاۃ واالسلام سے جب مزاح کے حوالے سے پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں حق کے سوا کوئی بات نہیں کرتا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم جو بھی مزاح فرماتے وہ حق اور حقیقت پر مبنی ہوتا، کسی کی دل آزاری نہ فرماتے، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ایک صحابی نے حضور علیہ الصلاۃ والسلام سے اونٹ سواری کے لیے مانگا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں تمہیں اونٹ کا بچہ دوں گا۔ اس نے کہا میں اونٹ کے بچے کو کیا کروں گا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہر اونٹ کسی نہ کسی اونٹ کا ہی تو بچہ ہوتا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے از راہ مزاح فرمایا میں تم کو اونٹ کا بچہ دوں گا۔ اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلام حقیقت پر مبنی تھا، یعنی مزاح ایسا ہونا چاہیے جس میں حقیقت ہو جھوٹ نہ ہو۔
جیسا کہ آجکل سٹیج ڈراموں میں ہوتا ہے، جس میں فحش کلام کرتے ہیں، نازیبا الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں، سر عام ایک دوسرے کی ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کو ننگی گالیاں دی جاتی ہیں، ایک دوسرے کی برائی، عیب جوئی بیان کی جاتی ہے، ایک دوسرے پر جھوٹ اور الزام تراشی کی جاتی ہے۔ ایسا مسخرہ پن کرنے والوں کو جہنم کی وعید ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔