جواب:
پانچ نمازوں کے علاوہ جن امور کے لیے اذان سنت یا مستحب ہے درج ذیل ہیں :
يسن الأذان لغير الصلاة،کما فی أذن المولود، والمهموم، والمصروع، والغضبان، و من ساء خلقه من انسان أوبهيمة، وعند مزدحم الجيش، وعند الحريق، قيل وعند انزال الميت القبر قياساً علی أول خروجه للدنيا... وعند تغوّل الغيلان : أی عند تمرد الجن لخبر صحيح فيه... لمن ضل الطريق فی أرض قفر: أی خالية من الناس. وقال الملا علی فی شرح المشکاة قالوا : يسن للمهموم أن يأمر غيره أن يوذن فی أذنه فانه يزيل الهم،کذا عن علی رضی اﷲ عنه.
’’نماز کے علاوہ بھی اذان مسنون ہے، جیسا کہ نومولود بچے کے کان میں، یونہی مغموم اور دورہ پڑنے والے پر، غصہ والے پر، بد اخلاق پر انسان ہو یا جانور، جب دشمن کے لشکر کا آمنا سامنا ہو جائے اور جلنے والے کے پاس۔ کہا گیا ہے کہ میت کو قبر میں اتارتے وقت قیاس کرتے ہوئے اس کے دنیا میں آنے پر ۔۔۔ یونہی چڑیلوں (جنات، بھوت)کی سرکشی کے وقت۔ اس کے بارے میں حدیث صحیح موجود ہے۔ یونہی جو کوئی ویران جگہ میں راہ بھول جائے۔
ملا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ نے مرقات (شرح مشکوۃ) میں فرمایا مغموم و پریشان کیلئے سنت یہ ہے کہ کسی دوسرے کو اپنے کان میں اذان کا حکم دے، اس سے غم دور ہوگا، یونہی حضرت علی کرم اﷲ وجہ سے منقول ہے۔‘‘
(ابن عابدين، ردالمحتار، 1 : 385، دار لفکر للطباعة و النشر، بيروت، سن اشاعت 1421)
لٰہذا قبر پر اذان مستحب ہے، جائز عمل ہے اور کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔