جواب:
اللہ تعالیٰ کی کاملاً عبادت کے حوالے سے حدیث جبرائیل میں بتایا گیا ہے۔ جیسے کہ حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ کی عبادت ایسے کرو گویا تم اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہو، اگر ایسے نہ کر سکو یعنی تم اللہ تعالیٰ کو نہ دیکھ سکو تو یہ خیال ذہن نشین رہے کہ بے شک اللہ تعالیٰ تم کو دیکھ رہا ہے۔
پوری توجہ اور انہماک سے عاجزی اور انکساری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا چاہیے، نماز کا ترجمہ یاد ہونا چاہیے، جو سورتیں بھی نماز کے اندر تلاوت کریں، ان کا ترجمہ بھی یاد ہو، تاکہ انسان الفاظ کے معانی پر پوری توجہ اور انہماک رکھے تاکہ اس کا دھیان اِدھر اُدھر نہ بھٹکے۔ یعنی انسان کو پوری کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنے دھیان کو ادھر ادھر نہ بھٹکنے دے۔
اس کے علاوہ اگر انسان کے دل میں خیالات، وسوسے آتے ہیں تو اس پر انسان کنٹرول نہیں کر سکتا، انسان کا ان پر اختیار نہیں ہے۔ ایسی ساری چیزیں جو فقط خیالات اور وسوسے ہی ہیں، انسان کو معاف ہیں۔
انسان کا فرشتوں کے ساتھ موازانہ کرنا ہی غلط ہے، انسان قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
لاَ يُكَلِّفُ اللّهُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَهَا
(الْبَقَرَة ، 2 : 286)
اﷲ کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا،
لہذا انسان کو اس کی طاقت کے مطابق مکلف ٹھہرایا گیا ہے، اس کو خیالات اور وسوسے آتے ہیں، جب تک ان پر عمل نہیں کرتا، اس کے نامہ اعمال میں کچھ نہیں لکھا جاتا، یہ معاف ہیں۔
ان خیالات اور وسوسوں سے فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے پاک اور منزہ رکھا ہے۔ اس لیے ان کا دھیان کسی طرف بھٹکتا نہیں ہے، وہ عبادت میں ہی مگن رہتے ہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔