جواب:
شادی بیاہ کے موقع پر دف بجانا، ڈھول ڈھمکا، اچھے اشعار گانے، غزلیں، مہندی لگانا، سہرا بندی، دولہے اور دلہن کو ڈولی اور پالکی میں بٹھانا سب کچھ جائز ہے، البتہ ان میں فضول خرچی کرنا یا کوئی غیر شرعی کام کرنا حرام ہے۔ ہر وہ چیز جو شرعی اصولوں کے خلاف ہو حرام اور ناجائز ہے اس کے علاوہ جائز ہے۔ اسلام دین فطرت ہے، ہربات میں توازن و اعتدال کی تقلین کرتا ہے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
وَّكُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَo
(الاعراف، 7 : 31)
اور کھاؤ اور پیو اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو کہ بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتاo
سو ہر چیز میں اعتدال اور توازن برقرار رکھنا ضروری ہے، ایسے ہی شادی کی رسوم ہیں جو شریعت کے خلاف نہیں تو انہیں اپنانے میں کوئی حرج نہیں، اس کے علاوہ ہر وہ چیز جو شرعی اصولوں کے خلاف ہو وہ حرام ہے۔ حدیث پاک سے خوشی کے مواقع پر گانے گانا اور دف بجانا ثابت ہے۔
حضرت ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میری شادی ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے گھر تشریف لائے، میرے بستر پر بیٹھ گئے، فرمایا :
فجعلت جويريات لنا يضربن بالدف ويندبن من قتل من ابائی يوم بدر اذ قالت احدهن و فينا نبی يعلم ما فی غد.
سو ہماری لڑکیوں نے دف بجانا اور شہدائے بدر کی تعریف کرنا شروع کر دی، اچانک ایک لڑکی نے یہ مصرع گایا کہ ہم میں ایک ایسے نبی ہیں جو کل کی باتیں جانتے ہیں فرمایا اسے چھوڑو جو کہہ رہی تھی وہی کہو۔
(بخاری، بحواله مشکوٰة، 271)
حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک عورت کی ایک انصاری سے شادی ہوئی، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
ماکان معکم لهو، فان الانصار يعجبهم اللهو.
تمہیں کوئی کھیل نہیں آتا، انصار کو کھیل پسند ہے۔
(بخاری، بحواله مشکوٰة، 271)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اعلنوا هذا النکاح و اجعلوه فی المساجد واضربوا عليه بالدفوف.
جامع ترمذی، 3 : 398، رقم 1089
اس نکاح کا اعلان کرو اور یہ مسجدوں میں کیا کرو اور اس پر دف بجایا کرو۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اپنی ایک رشتہ دار انصاری لڑکی کا نکاح کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا :
تم نے لڑکی کو دلہن بنا کر تیار کر دیا؟ عرض کی گئی جی ہاں، پھر فرمایا تم نے اس کے ساتھ کوئی گانے والی بھیجی، عرض کی نہیں، تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا انصار میں گانے کا رواج ہے، سو تم اگر دلہن کے ساتھ ایسے (مرد یا عورت) بھیجتے جو یوں گاتے، ہم تمہارے پاس آتے، ہم تمہارے پاس آتے سو اللہ تعالیٰ ہمیں بھی زندہ رکھے اور تمہیں بھی۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا میرے پاس ایک انصاری لڑکی تھی، میں نے اس کی شادی کی، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، عائشہ کیا تم گانے کا اہتمام نہیں کر رہی؟ یہ قبیلہ انصار گانے پسند کرتا ہے۔
(مشکوٰة، 272)
حضرت عامر بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ میں ایک شادی کے موقع پر قرظہ بن کعب اور ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا، دیکھتا کیا ہوں کہ لڑکیاں گا رہی ہیں، میں نے کہا اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھیو اور بدر کے مجاہدو! تمہارے پاس یہ کچھ ہو رہا ہے؟ انہوں نے کہا چاہتے ہو تو ہمارے پاس بیٹھ کر سنو اور چاہو تو تشریف لے جاؤ۔ ہمیں شادی بیاہ میں کھیل کود کی اجازت دی گئی ہے۔
(سنن نسائی، بحواله مشکوٰة، 273)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کے پاس تشریف لائے، آپ کے پاس عید کے دن دو لڑکیاں گا رہی تھیں، دف بجا رہی تھی اور پاؤں مار رہی تھیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کپڑے میں لیٹے ہوئے تھے، ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ان کو جھڑکا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چہرہ اقدس سے کپڑے کو ہٹایا اور فرمایا، ابو بکر ان کو چھوڑ دو، یہ عید کے دن ہیں۔ یہ منی میں قیام کے دن تھے۔
(بخاری، مصنف عبدالرزاق، 11 : 4)
اس کے علاوہ صحاح ستہ میں بہت ساری احادیث مذکور ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ خوشی کے موقع پر دف بجانا، ڈھول بجانا، شادی بیاہ کے گیت، غزلیں اور عید کے گیت گانا جائز ہیں۔
حرام و حلال میں فرق ہی گانا گانے اور دف بجانے سے ہے۔
محمد بن حاطب جمحی رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا حلال و حرام میں فرق یہ ہے کہ نکاح میں گانے کی آواز اور دف بجایا جاتا ہے۔ جبکہ حرام کام خاموشی اور چوری سے کیا جاتا ہے۔
(احمد بن حنبل، ترمذی، نسائی، ابن ماجه بحواله مشکوٰة، 272)
بعض کم علم لوگ شادی اتنی خاموشی سے کرتے ہیں کہ نہ دف کی آواز نہ گانے کی اور اسے نیکی اور پرہیز گاری سمجھتے ہیں، حالانکہ نیکی اور پرہیزگاری حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم ماننے میں ہے نہ کہ ترک کرنے میں۔ لہذا خاموشی کے موقع پر دف بجانا، اور گانا، سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ بالکل خاموشی سے شادی کرنا جیسے مرگ ہو گئ ہے، شرعی حکم نہیں ہے کہ اس کی خلاف ورزی ہو، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلامی شادی یعنی حلال اور بدکاری میں یہی فرق بتایا ہے۔
بات بالکل واضح ہے کہ شادی کا لوگوں کا علم ہونا چاہیے تاکہ آج تک جو لڑکی آپ کے ہمراہ دیکھی نہ گئی، آج اسے اچانک آپ کے ساتھ آتے جاتے دیکھ کر لوگ چہ میگوئیاں کریں گے، اور جب دف بجائے گئے، گانے گائے گئے تو سب کو پتہ چل گیا کہ اس لڑکی کی فلاں لڑکے کے ساتھ شادی ہو گئی ہے۔ اس لیے ان کا ایک دوسرے کے ساتھ رہنا اور آنا جانا کسی کے لیے قابل اعتراض نہ رہے گا۔
قرآن کریم کی مذکورۃ الصدر آیات اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صریح ارشادات اور صحابہ کرام کے واضح آثار و اقوال سے یہ بات ثابت اور واضح ہو گئی کہ اچھے اشعار گانے اور ڈھول ڈھمکے بیاہ شادی، منگنی اور خوشی کے دیگر مواقع پر اسلامی احکام کے عین مطابق ہیں، اور یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور صحابہ کا تعامل ہے۔ البتہ اعتدال ضروری ہے ورنہ حد سے تجاوز کرنے سے نیک کام بھی گناہ بن جاتے ہیں، کلام شریفانہ ہو، آواز اچھی ہو، ڈھول وغیرہ بجایا جائے اور مردوں اور عورتوں کا اختلاط نہ ہو اور ماحول با وقار ہو تو خاص مواقع پر ایسا کرنا شرعاً جائز ہے۔
اسلامی شادی میں خوشی کا اظہار تو ہوتا ہے، دعوت ولیمہ سنت ہے، مگر دوسری رسوم مثلاً فحش گانے، مہندی کی رسم پر فحش ناچ گانا، ناچنے گانے کے لیے طوائف بلانا، رقص و سرود، شراب و کباب کی محفلیں سجانا، نہ اسلام کی رو سے جائز ہے اور نہ عقل و دانش کی رو سے۔
شادی پر حسب توفیق خوشی کا اظہار کرنا، کھانے میں غرباء کو دعوت دینا، کنجوسی اور فضول خرچی دونوں سے بچنا اور اعتدال پر رہنا، دف بجانا، ڈھول بجانا، نکاح مسجد میں سرعام کرنا، یہ چیزیں اپنانی چاہیں اور غلط رسوم سے پرہیز کرنا چاہیے۔
اگر کوئی شخص بھی شادی بیاہ اور خوشی کے دیگر مواقع پر دف بجانا، ڈھول بجانا اور اچھے اشعار گانے کا انکار کرتا ہے تو وہ دلیل شرعی لے آئے، ویسے زبانی کلامی باتیں کرنے سے حرام اور حلال ثابت نہیں ہوتا۔
دف ہر چیز کا پہلو، نقارے کے دو دف، وہ دو چمڑے جو اس پر چڑھے ہوتے ہیں جن پر چھڑی ماری جاتی ہے۔ دف ایک آلہ ہے جس کا اہم جزو چوڑی لکڑی ہوتی ہے، اسے کشتی کے پچھلے حصے میں فٹ کیا جاتا ہے کہ یہ ادھر ادھر جھکتی رہتی ہے۔
(المنجد، 217، بيروت)
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔