جواب:
عمل کی قبولیت حسن نیت پر ہے اور حسن نیت کا نکھار اور کمال اللہ کی رضا سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کسی بندے سے راضی ہو جانا دراصل دنیا و آخرت کی سب سے بڑی دولت اور سب سے بڑا انعام ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
تَرٰهُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِّنَ اللہِ وَ رِضْوَانًا.
الفتح، 48 : 29
’’اے دیکھنے والے تو دیکھتا ہے کہ وہ کبھی رکوع کبھی سجود میں ہیں (غرض ہر طرح) اللہ سے اس کے فضل اور اس کی رضامندی کے طلبگار ہیں۔‘‘
یعنی رضائے الٰہی کے طلبگاروں کو کسی چیز کی پروا نہیں وہ صرف اور صرف اپنے رب کی رضا کے طالب ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے:
وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللہِ اَکْبَرُO
التوبة، 9 : 72
’’اور اللہ کی رضا سب سے بڑھ کر ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کائنات کا خالق و مالک ہے، ہر کوئی اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے مگر اللہ کسی کا محتاج نہیں۔ شان صمدیت کا مالک اور منتہائے رضا کا حقدار صرف اللہ تعالیٰ ہے، اس لیے مخلوق کے لئے اپنے خالق و مالک کی رضا حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ اگر بندہ خود کو غلام اور اللہ تعالیٰ کو اپنا رب، خالق اور مالک حقیقی سمجھتا ہے تو پھر کونسا غلام ہو گا جسے اپنے مالک کی خوشنودی مطلوب نہ ہو اور پھر نیک اعمال کی انجام دہی یہی جذبہ رضائے الٰہی کے لئے ایک محرک کا کام دیتا ہے۔ یہ ایسا بہترین محرک ہے کہ اگر بندے کے دل کا مرکز و محور صرف اور صرف اللہ کی رضا ہو تو دلوں کو ہر طرح کی آلائشوں سے نجات مل جاتی ہے۔ ہر طرح کے خوف، لالچ، حرص و ہوس، غرور و تکبر اور حسد و منافقت وغیرہ حرف غلط کی طرح مٹ جاتے ہیں اور دل پاک صاف ہو کر اللہ کی محبت کا ٹھکانہ بن جاتے ہیں اس حالت میں جو بھی عمل کرے گا وہ خواہ ادنیٰ سا ہی کیوں نہ ہو اللہ کی بارگاہ میں قبولیت کا شرف پا کر حسین ہو جائے گا۔ اس پر اللہ کی رضا و خوشنودی کی چھاپ لگ جائے گی اور یوں بندہ درجہ احسان پر فائز ہو جائے گا۔ اس لیے رضائے الٰہی کا حصول ضروری ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔