جواب:
جی ہاں گھر والے اور رشتہ دار بھی کھا سکتے ہیں، اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں۔ شریعت میں کوئی نیک کام کر کے اس کا ثواب کسی مرحوم یا زندہ مسلمان کو پہنچانا امر مستحسن قرار دیا گیا ہے۔ فقہائے کرام فرماتے ہیں :
ان الانسان له ان يجعل ثواب عمله لغيره صلوة او صوما او غيرها عند اهل السنة والجماعة. لماروی عن النبی صلی الله عليه وآله وسلم انه ضحٰی بکبشين املحين احدهما عن نفسه و لاخر عن امته الخ.
(بخاری و مسلم، هدايه، 1 : 263)
انسان کو یہ حق ہے کہ اپنے عمل کا ثواب دوسرے کو بخش دے، نماز و روزہ ہو یا کچھ اور یہ مسئلہ اہل سنت و جماعت کے ہاں ہے، بوجہ اس حدیث پاک کے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو چتکبرے مینڈھوں کی قربانی کی، ایک اپنی طرف سے اور دوسرا اپنی امت کی طرف سے۔
تیسرا یا دسواں، چالیسواں دن شرعاً ضروری نہیں۔ یہ عارضی طور پر اور انتظامی سہولت کے پیش نظر مقرر کئے جاتے ہیں، عموماً مرنے والے کے بہت سے عزیز، رشتہ دار، احباب ہوتے ہیں کچھ جنازے میں شریک ہو جاتے ہیں، کچھ بوجوہ نہیں ہو سکتے۔ جو سنتا ہے، اہل خانہ کے اس تعزیت و دعائے مغفرت کے لیے آتا ہے، لوگوں کی گوناگوں مصروفیات ہوتی ہیں، مرحوم کے اہل خانہ و عزیزوں سے اظہار تعزیت و دعائے مغفرت بھی ضروری ہے تاکہ دکھ تقسیم ہو جائے اور غمزدہ خاندان مصیبت کی گھڑی میں اپنے آپ کو تنہا نہ سمجھے۔ وقت مقرر کئے بغیر آنے والوں کو بھی دشواری ہے اور اہل خانہ کو بھی، زندگی کی سینکڑوں مصروفیات و ضروریات و مشاغل ہیں، نہ گھر والے عرصہ دراز آنے والوں کے انتظار میں فارغ ہو کر بیٹھ سکتے ہیں، نہ آنے والے آنے سے باز رہ سکتے ہیں۔ لہذا بڑے بزرگوں نے چند دن اپنی اور آنے والوں کی سہولت کے لیے اپنے اوپر مخصوص کر دیئے تاکہ دونوں کو سہولت رہے۔
جب مقرر کردہ دنوں میں اعزہ و اقارب جمع ہوگئے، تو سوچا بجائے گپ شپ کے کیوں نہ کچھ پڑھ لیا جائے، تلاوت قرآن مجید، کلمہ طیبہ، درد و سلام وغیرہ کا ورد کر لیا جائے کچھ صدقہ و خیرات حسب توفیق ہو جائے، تاکہ جمع ہونے والوں اور اہل خاندان و خانہ کی طرف سے مرحوم کو ثواب ارسال کر دیا جائے۔ دعائے مغفرت ہو جائے۔
اب جو شخص اپنے مرنے والے کی خیر خواہی کرنا چاہے وہ کر دے۔ نہیں کرنا چاہتا تو نہ کرے۔ جھگڑے کی ضرورت نہیں، سوم، چہلم، دسواں وغیرہ کی یہی اصل ہے۔ مرنے والوں کو ثواب پہنچانا اور دعائے مغفرت و بلند درجات کرنا قرآن و حدیث سے ثابت ہے، اختصار کے پیش نظر امید ہے کہ یہ مختصر تحریر کافی ہوگی، ورنہ کافی گنجائش باقی ہے۔ رہا کھانے پینے کا ڈھنگ، تو سن لیجئے کہ رزق حلال میں سے کھاتے بھی ہیں اور کھلاتے بھی ہیں۔
ويطعمون الطعام علی حبه مسکينا و يتيما و اسير
(الدهر، 76 : 8)
مسلمان اللہ تعالیٰ کی محبت میں مسکین، یتیم، اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک شخص نے سوال پوچھا :
ای الاسلام خير.
کونسا الاسلام بہتر ہے؟
فرمایا :
تطعم الطعام و تقرئ السلام علی من عرفت و من لم تعرف.
(بخاری و مسلم، بحواله، مشکوٰة، 397)
کھانا کھلاؤ اور سلام کرو، جس کو پہچانتے ہو اور اسے بھی جسے نہیں پہچانتے۔
لہذا اسلامی احکام پر عمل کرنے پر کسی کو طعن و طنز کرنا درست نہیں۔ درود و سلام پڑھنا، صدقہ و خیرات کرنا قرآن کی تلاوت کرنا، اللہ کا ذکر کرنا، کھانا کھلانا، کپڑے پہنانا، خلوص نیت سے ہو، رزق حلال سے ہو تو نیکی ہے اور کار ثواب ہے۔ ان تمام ثوابوں کو جمع کر کے مرنے والوں کے نام بھیجنا اور ان کے لیے دعائے خیر کرنا۔ قرآن و حدیث کے عین مطابق ہے اور کوئی مسلمان، سوم، ساتواں، چہلم وغیرہ کے موقع پر اس کے سوا کچھ نہیں کرتا۔ منع کرنے والے کوئی دلیل پیش کریں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔