جواب:
عالم اسلام کے جمہور علماء کا روز اول سے یہ مسلک رہا ہے اور الحمد للہ آج بھی وہ اس پر قائم ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر نبی اور رسول ہیں جو بنی اسرائیل کی اصلاح و ہدایت کے لیے مبعوث کئے گئے۔ ان کی پیدائش بھی معجزہ کے طور پر ہوئی، اور وہ جسم اور روح کے ساتھ آسمان پر زندہ اٹھا لیے گئے اور قرب قیامت کی علامت کبریٰ کے طور پر دوبارہ آسمان سے زمین پر اتریں گے، یہ بات نفس الامر کے طور پر دلیل قطعی ہے اور اس پر امت کا اجماع ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات قرآن مجید سے ثابت ہے اور اس کی توضیح تائید میں احادیث متواترہ کا ایک ذخیرہ موجود ہے۔
حضرت عیسی علیہ السلام کے حوالے سے قرآن مجید میں درج ذیل آیات مبارکہ ملاحظہ ہوں۔
فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسَى مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللّهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ اللّهِ آمَنَّا بِاللّهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ o رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا أَنزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُولَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ o وَمَكَرُواْ وَمَكَرَ اللّهُ وَاللّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ o إِذْ قَالَ اللّهُ يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُواْ وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُواْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ o
(آل عمران، 3 : 52 تا 55)
پھر جب عیسٰی (علیہ السلام) نے ان کا کفر محسوس کیا تو اس نے کہا: اﷲ کی طرف کون لوگ میرے مددگار ہیں؟ تو اس کے مخلص ساتھیوں نے عرض کیا: ہم اﷲ (کے دین) کے مددگار ہیں، ہم اﷲ پر ایمان لائے ہیں، اور آپ گواہ رہیں کہ ہم یقیناً مسلمان ہیںo اے ہمارے رب! ہم اس کتاب پر ایمان لائے جو تو نے نازل فرمائی اور ہم نے اس رسول کی اتباع کی سو ہمیں (حق کی) گواہی دینے والوں کے ساتھ لکھ لےo پھر (یہودی) کافروں نے (عیسٰی علیہ السلام کے قتل کے لئے) خفیہ سازش کی اور اﷲ نے (عیسٰی علیہ السلام کو بچانے کے لئے) مخفی تدبیر فرمائی، اور اﷲ سب سے بہتر مخفی تدبیر فرمانے والا ہےo جب اﷲ نے فرمایا: اے عیسٰی! بیشک میں تمہیں پوری عمر تک پہنچانے والا ہوں اور تمہیں اپنی طرف (آسمان پر) اٹھانے والا ہوں اور تمہیں کافروں سے نجات دلانے والا ہوں اور تمہارے پیروکاروں کو (ان) کافروں پر قیامت تک برتری دینے والا ہوں، پھر تمہیں میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے سو جن باتوں میں تم جھگڑتے تھے میں تمہارے درمیان ان کا فیصلہ کر دوں گاo
احادیث مبارکہ میں بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت ثانیہ کے حوالے سے ذکر آیا ہے، جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، عنقریب تم میں ابن مریم اتریں گے، جو انصاف کے ساتھ فیصلہ فرمائیں گے، صلیب کو توڑیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، جزیہ موقوف کر دیں گے، اور اس وقت مال اتنا زیادہ ہوجائے گا کہ اسے کوئی بھی قبول نہ کرے گا۔
(بخاری، مسلم، صحاح ستة، کتاب الايمان، باب نزول عيسی ابن مريم، کتاب الفتن)
اسی طرح بہت سی احادیث کی کتب میں حضرت عیسی کی بعثت ثانی کے حوالے سے احادیث مذکور ہیں۔ احادیث میں موجود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشن گوئیوں کے مطابق قرب قیامت حضرت عیسیٰ دوبارہ اس حال میں زندہ تشریف لائیں گے کہ آپ نے اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے بازوؤں پر رکھے ہونگے، نماز فجر کے وقت دمشق کی مشرقی جانب جامع مسجد میں آپ کا نزول ہوگا۔ دجال کا قتل آپ کے ہاتھوں ہوگا۔ آپ کی شادی اور اولاد ہوگی،
بالآخر کل نفس ذائقۃ الموت کے تحت آپ کا طبعی وصال ہوگا اور تاجدار کائنات کے پہلو میں گنبد خضریٰ کے اندر آپ کو دفن کیا جائے گا۔ امت مسلمہ کا اجماعی اور متفق علیہ عقیدہ قرآن اور حدیث کے مطابق یہ ہے کہ حضرت عیسٰی کی طبعی وفات نہیں ہوئی اور وہ آسمان سے زندہ زمین پر اتریں گے۔
اس موضوع پر تفصیلی مطالعہ کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی درج ذیل کتب کا مطالعہ کریں
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔