پرائز بونڈ لینا حرام ہے یا حلال؟


سوال نمبر:1211
پرائز بونڈ لینا حرام ہے یا جائز ہے؟

  • سائل: نذر شاہمقام: دوبئی
  • تاریخ اشاعت: 06 اکتوبر 2011ء

زمرہ: پرائز بانڈ

جواب:

حکومت اپنی مختلف پیداواری یا غیر پیداواری ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے عوام سے پیسہ قرض لیتی ہے، بعض سکیموں میں متعین منافع دیتی ہے، انعامی بانڈز وہ تمسکات ہیں جن کے ذریعے حکومت لوگوں سے روپیہ وصول کرتی ہے اور دینے والوں کو ترغیب کی خاطر، اس مال کو تجارتی و صنعتی مقاصد میں لگاتی اور منافع کماتی ہے۔ کھاتے داروں کی دلجوئی اور ترغیب کی خاطر حاصل ہونے والے منافع میں سے انتظامی اخراجات منہا کرکے باقی کی کچھ رقم قرعہ اندازی کے ذریعے کھاتے داروں میں تقسیم کر دیتی ہے۔ کسی کو ملتا ہے کسی کو نہیں ملتا، البتہ اصل زر محفوظ رہتا ہے۔ ہر چند کہ اس صورت میں قباحت ہے کہ بعض کھاتے دار منافع سے محروم اور بعض متمتع ہوتے ہیں، جبکہ سرمایہ سب کا لگا ہوا ہے، تاہم اس خرابی کے باعث چونکہ یہ جوا یا سود نہیں لہذا جائز ہے۔

اگر حکومت چاہے تو حاصل شدہ رقم کو مضاربہ کے طور پر استعمال کر سکتی ہے۔ جس سے حاصل شدہ منافع اخراجات کو منہا کرنے کے بعد تمام کھاتے داروں میں متناسب شرح سے تقسیم کر دیا جائے اور ہر حصہ دار کو اس کا جائز حصہ پہنچ جائے۔ اپنے ہاتھ کی کمائی واقعی بہترین روزی ہے لیکن کچھ دوسری صورتوں سے حاصل شدہ روزی بھی بہترین ہے۔ مثلاً وراثت سے شرعی حصہ، ھبہ شدہ مال، مالِ غنیمت وغیرہ بھی بہترین رزق ہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی