جواب:
طلاق یافتہ عورت سے نکاح جائز ہے، کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے۔ بخاری شریف کی حدیث ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں ایک غزوہ سے تیزی کے ساتھ گھر آ رہا تھا تو آقا علیہ السلام نے فرمایا :
ما يعجلک قلت حديث لمهد بعرس قال ابکراً ثيباً قلت ثيب قال فهلا جاريه تلاعبها و تلاعبک.
(بخاری شريف، 2 : 760)
فرمایا اتنی جلدی میں کیوں ہو؟ میں نے کہا کہ میں نے ابھی نئی شادی کی ہے۔ فرمایا باکرہ (کنواری) یا ثیب کے ساتھ شادی کی ہے؟ میں نے کہا ثیبہ ہے۔ فرمایا کنواری کے ساتھ شادی کرتا تو تم اسے کے ساتھ کھیلتے اور وہ تمہارے ساتھ کھیلتی۔
اس حدیث پاک میں کنواری سے شادی کرنا افضل قرار دیا لیکن ثیبہ (طلاق یافتہ ہو یا اس کا شوہر وفات ہو گیا ہو) کے ساتھ شادی کرنا بھی جائز ہے۔
ابن ابی ملیکہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا :
لم ينکح النبی صلی الله عليه وسلم بکراً غيرک.
کہ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تمہارے علاوہ کسی اور کنواری سے نکاح نہیں کیا،
یعنی آپ کے علاوہ تمام ازواج مطہرات ثیبات ہیں، یعنی کسی کا شوہر فوت ہو چکا یا کسی کو طلاق ہوئی ہے۔ لہذا معلوم ہوا کہ کنواری کے ساتھ نکاح کرنا افضل ہے اور ثیبہ سے جائز ہے۔
حدیث پاک میں آتا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :
تنکح المراء ة لاربع لمالها و لحسبها و لجمالها و لدينها فاظفر بذات الدين تربت يداک.
(متفق عليه، بحواله مشکوٰة شريف، 267)
فرمایا عورت کے ساتھ چار وجوہات سے نکاح کیا جاتا ہے۔
فرمایا کہ کنواری کو ترجیح دو،
لہذا والدین کو اچھے طریقے سے قائل کریں، ان کا مشورہ باعث خیر و برکت ہوتا ہے، لہٰذا صبر سے کام لیں، اگر وہ دیندار اور باکردار ہے تو والدین کو قائل کرنے کی کوشش کریں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔