قرآن و حدیث میں طلاق یافتہ عورت سے شادی کرنے کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:1148
میں نے ایک عورت کو دیکھا ہے جس کی عمر 19 سال ہے اور اس کے شوہر نے اس کو شادی کے 2 سال بعد طلاق دے دی تھی، جب اس کی عمر 16 سال تھی، میری عمر 26 سال ہے اور میرے والدین میرے لیے ایک لڑکی تلاش کر رہے ہیں۔ میں نے اس لڑکی کو اور اس کے والدین کو بتایا ہے کہ میں‌ اس لڑکی سے شادی کروں گا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ مجھے اپنے والدین کو راضی کرنے کے لیے اسلام کی روشنی میں کچھ جوابات درکار ہیں‌ کہ کیا میں‌ ایک طلاق یافتہ عورت سے شادی کر سکتا ہوں؟ میرے دوستوں نے مجھے بتایا ہے کہ میں اس سے شادی کر سکتا ہوں مگر میرے والدین کہتے ہیں کہ میں ایسی لڑکی سے شادی نہ کروں جس کو طلاق ہو چکی ہے، وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمیں صرف کنواری لڑکی سے ہی شادی کرنی چاہیے اور ہمیں اس عورت سے شادی کرنی چاہیے جو ہمارے برابر کی فیملی سے ہو۔ ہم ایسی لڑکی سے شادی نہیں‌ کر سکتے جو ہمارے خاندان سے کم درجہ ہو، میرے دوستوں نے مجھے بتایا ہے کہ شریعت میں‌ اس کی اجازت ہے کہ ہم کر سکتے ہیں۔ کیا یہ درست ہے؟ کیا آپ اس مسئلے میں میرے والدین کو رضامند کرنے میں‌ میری مدد کرسکتے ہیں ؟

  • سائل: ایوبمقام: نامعلوم
  • تاریخ اشاعت: 20 اکتوبر 2011ء

زمرہ: نکاح

جواب:

طلاق یافتہ عورت سے نکاح جائز ہے، کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے۔ بخاری شریف کی حدیث ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں ایک غزوہ سے تیزی کے ساتھ گھر آ رہا تھا تو آقا علیہ السلام نے فرمایا :

ما يعجلک قلت حديث لمهد بعرس قال ابکراً ثيباً قلت ثيب قال فهلا جاريه تلاعبها و تلاعبک.

(بخاری شريف، 2 : 760)

فرمایا اتنی جلدی میں کیوں ہو؟ میں نے کہا کہ میں نے ابھی نئی شادی کی ہے۔ فرمایا باکرہ (کنواری) یا ثیب کے ساتھ شادی کی ہے؟ میں نے کہا ثیبہ ہے۔ فرمایا کنواری کے ساتھ شادی کرتا تو تم اسے کے ساتھ کھیلتے اور وہ تمہارے ساتھ کھیلتی۔

اس حدیث پاک میں کنواری سے شادی کرنا افضل قرار دیا لیکن ثیبہ (طلاق یافتہ ہو یا اس کا شوہر وفات ہو گیا ہو) کے ساتھ شادی کرنا بھی جائز ہے۔

ابن ابی ملیکہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا :

لم ينکح النبی صلی الله عليه وسلم بکراً غيرک.

کہ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تمہارے علاوہ کسی اور کنواری سے نکاح نہیں کیا،

یعنی آپ کے علاوہ تمام ازواج مطہرات ثیبات ہیں، یعنی کسی کا شوہر فوت ہو چکا یا کسی کو طلاق ہوئی ہے۔ لہذا معلوم ہوا کہ کنواری کے ساتھ نکاح کرنا افضل ہے اور ثیبہ سے جائز ہے۔

حدیث پاک میں آتا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :

تنکح المراء ة لاربع لمالها و لحسبها و لجمالها و لدينها فاظفر بذات الدين تربت يداک.

(متفق عليه، بحواله مشکوٰة شريف، 267)

فرمایا عورت کے ساتھ چار وجوہات سے نکاح کیا جاتا ہے۔

  1. مالدار ہو
  2. نسب والی ہو
  3. خوبصورت ہو
  4. دیندار ہو

فرمایا کہ کنواری کو ترجیح دو،

لہذا والدین کو اچھے طریقے سے قائل کریں، ان کا مشورہ باعث خیر و برکت ہوتا ہے، لہٰذا صبر سے کام لیں، اگر وہ دیندار اور باکردار ہے تو والدین کو قائل کرنے کی کوشش کریں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: صاحبزادہ بدر عالم جان