جواب:
تقلید کا معنی ہے :
قبول قول الغير بلا حجة.
کسی دوسرے کا قول بغیر دلیل ماننا تقلید ہے۔
چونکہ ہر شخص اس قابل نہیں کہ قرآن مجید اور احادیث سے مسائل کا استنباط کر سکے، اس لیے کہا جاتا ہے :
لکل فن رجال.
ہر فن کے ماہرین ہوتے ہیں۔
یہ بات قابل غور ہے کہ ایک لاکھ سے زیادہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین بھی خود قرآن مجید اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سمجھنے کے لیے اپنے سے زیادہ عالم صحابی سے پوچھتے تھے۔ روایات میں آتا ہے کہ صرف دس صحابہ فتویٰ دے سکتے تھے، یعنی اندازہ کر لیں جبکہ ان ہستیوں کا یہ حال ہے کہ انہوں نے براہ راست آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فیض حاصل کیا، پھر بھی عبداللہ بن مسعود اور ابن عباس رضی اللہ عنہما جیسے فقیہ صحابہ کرام کی طرف رجوع کیا جاتا تھا تو آج کے زمانے میں کیا حال ہے؟
ان چار اماموں کے وضع کردہ قواعد و ضوابط ہمارے لیے کافی ہیں۔ انہوں نے شب و روز محنت کر کے فقہ کو باقاعدہ ایک فن کی شکل دے دی اور مسائل حل کرنے کے لیے قواعد مقرر کئے ہیں۔ لہذا چاروں اماموں میں سے کسی ایک کی تقلید واجب ہے لیکن اگر کوئی عالم دین مجتہد کے مقام پر ہو تو اس پر تقلید واجب نہیں ہے۔ صرف عام علماء اور عوام الناس کے لیے واجب ہے۔
تقلید کا یہ مفہوم لینا کہ ہم امام اعظم کی تقلید کرتے ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقلید کیوں نہیں کرتے، بالکل غلط ہے، بلکہ اصل امام اعظم کی تقلید ہی ہے، کیونکہ انہوں نے قرآن و حدیث ہی کی روشنی میں فقہ حنفی کو مرتب کیا ہے۔ میں یہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیروی ہے لیکن مجتھد کے بغیر قرآن مجید کا مفہوم اور حدیث کا صحیح معنی متعین کرنا مشکل ہے، اس لیے کسی امام کے قول کو معتبر مانا جاتا ہے۔
اہل تشیع فقہ جعفریہ کہلاتی ہے، مزید تفصیلات کے لیے کسی شیعہ عالم سے رابطہ کریں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔