تزکیہ و احسان یا تصوف و سلوک کے بارے میں نبی کریم (ص) کے معمولات کیا تھے؟


سوال نمبر:109
تزکیہ و احسان یا تصوف و سلوک کے بارے میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولات کیا تھے؟

  • تاریخ اشاعت: 20 جنوری 2011ء

زمرہ: تصوف

جواب:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ بنی نوع انسان کے لئے کامل نمونہ ہے۔ دین کے ظاہری پہلو، شریعت کی تعلیمات و احکامات کی بات ہو یا دین کے باطنی پہلو اور طریقت و احسان کی بات ہو یہ سب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مبارکہ سے ثابت شدہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت ہمہ جہت اور ہمہ صفت تھی۔ یہ اصول پیش نظر رہنا چاہیے کہ روٹی تب کھائی جاتی ہے جب بھوک ہو، دوا اس لیے استعمال کی جاتی ہے تاکہ شفاء یابی ہو لیکن اگر بھوک ہی نہ ہو تو کھانے کی طلب نہیں رہتی اور بیماری ہی نہ ہو تو دوا کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس لیے اگر انسان پہلے ہی سے نفس کی آلودگیوں اور باطن کی آلائشوں سے پاک و مبرا ہو تو اسے تزکیہ و تصفیہ کے لئے سالک طریقت بننے کی ضرورت نہیں ہوتی جبکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روحانی مقام کی ابتداء بھی طریقت و ولایت کے انتہائی مقام سے ماوراء تھی لیکن چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کے لئے ہر پسندیدہ حکم کا عملی نمونہ بھی پیش کرنا تھا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سلوک و احسان کے اصول وضع فرمائے اور اپنی عملی زندگی میں ان کو نافذ کر کے دکھایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ خشوع و خضوع، زہد و ورع، خشیت الٰہی، محبت و معرفت الٰہی کی عظیم مثالی کيفیات سے بھری پڑی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راتوں کو کثرت سے اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری کرنے والے اور دن کو روزہ رکھنے والے تھے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راتوں کو اتنی کثیر عبادت کرتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں مبارک میں ورم آ جاتا۔ اتنی کثیر عبادت کے باعث صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ اتنی مشقت کیوں فرماتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے بخشش کا وعدہ فرما رکھا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔

بخاری، الصحيح : 207، رقم : 1130، کتاب التهجد، باب قيام النبی صلی الله عليه وآله وسلم حتی ترم قد ماه

ایک روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مردہ بکری کے قریب سے گزرے اور فرمایا : دیکھو یہ مردار اس درجہ ذلیل و خوار ہے کہ کوئی بھی اس کی طرف توجہ نہیں کرتا۔ اس اللہ کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ حق تعالیٰ کے نزدیک دنیا اس مردار سے بھی زیادہ ذلیل و خوار ہے۔ فرمایا : دنیا کی صحبت تمام گناہوں کی سردار ہے، دنیا برباد شدہ لوگوں کا گھر اور مفلسوں کا مال ہے۔

ترمذی، الجامع : 635 رقم : 2321، کتاب الزهد، باب ما جاء فی هوان الدنيا علی اللہ عزوجل

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔