رفع یدین کی شرعی حیثیت کیا ہے؟


سوال نمبر:1082
اہل حدیث کہتے ہیں‌ کہ رفع یدین والی تمام احادیثیں صحیح ہیں اور حنفی کہتے ہیں کہ ہمارے پاس بھی دلیل موجود ہے۔ دو طرفہ دلائل موجود ہیں ایک عام آدمی کیا کرے؟ مہربانی کر کے تفصیلی جواب دیں اور یہ بھی بتائیں کہ اسناد کے اعتبار سے مضبوط دلیل کس کی ہے۔ شکریہ

  • سائل: عبدالرب‌ جانمقام: میر‌ پور‌، آزاد کشمیر
  • تاریخ اشاعت: 29 جون 2011ء

زمرہ: مسئلہ رفع یدین

جواب:

بخاری شریف کی حدیث مبارکہ بھی صحیح ہے اور مسلم شریف کی حدیث مبارکہ بھی درست اور صحیح ہے۔ ہم احناف یہ نہیں کہتے کہ رفع یدین والی حدیث صحیح نہیں ہے بلکہ ہم کہتے ہیں کہ اوائل اسلام میں رفع یدین کیا جاتا تھا پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے منسوخ کر دیا۔ دین اسلام میں یہ ایک بڑی خوبی ہے کہ حالات کے مطابق اور لوگوں کے احوال کے مطابق حکم دیا جاتا ہے قرآن مجید میں بھی ناسخ آیات اور منسوخ آیات موجود ہیں، اس طرح حدیث مبارکہ میں بھی ناسخ و منسوخ موجود ہیں لیکن یہ ہر کسی کا کام نہیں، ماہر علما کرام یہ پہچان کر سکتے ہیں کہ فلاں حدیث منسوخ ہے اور فلاں نہیں ۔رفع یدین کو مندرجہ ذیل حدیث مبارکہ سے منسوخ کہتے ہیں۔ امام مسلم یہ روایت کرتے ہیں:

عن جابر بن سمرة قال خرج علينا رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فقال مالی اراکم رفعی يديکم کانها اذناب خيل شمس اسکنوا فی الصلوٰة الخ

(صحيح مسلم، 1: 201، طبع ملک سراج الدين لاهور)

جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام ہماری طرف تشریف لائے۔ (ہم نماز پڑھ رہے تھے) فرمایا کیا وجہ سے کہ میں تمہیں شمس قبیلے کے سرکش گھوڑوں کی دموں کی طرح ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ نماز میں سکون سے رہا کرو۔

اس حدیث پاک میں رفع یدین سے منع کیا گیا اور تشبیہ دی کہ شمس قبیلہ کے گھوڑوں کی دموں کی طرح ہاتھ نہ اٹھاؤ۔

یہ حدیث امام احمد بن حنبل نے بھی روایت کی ہے، امام ابو داؤد نے بھی روایت کی ہے، مسند ابی عوانہ میں بھی روایت کی گئی، امام بیہقی نے سنن کبری میں روایت کی ہے، امام ترمذی اور امام ابو داؤد حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کرتے ہیں:

قال ابن مسعود الا اصلی بکم صلوٰة رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فصلی فلم يرفع يديه الا فی اول مرة

ابن مسعود رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابی اور تمام صحابہ سے فقہی ہیں، وہ  فرماتے ہیں کہ لوگوں کیا میں تمہیں وہ نماز پڑھاؤں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز ہے؟ تو نماز پڑھائی اور رفع یدین نہیں کیا سوائے پہلی مرتبہ کے۔

اگر رفع یدین منسوخ نہ ہوتا تو آپ ضرور کرتے چونکہ ان کے نزدیک منسوخ تھا۔ اس لیے فرمایا کہ وہ نماز پڑھاؤں جو آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نماز ہے، حالانکہ تمام عمر صحابہ کرام آپ ہی کی طرح نماز ادا کرتے۔ معلوم ہوا جب رفع یدین منسوخ ہوا تو آپ نے محسوس کیا کہ صحابہ کو بتا دوں۔ اس موضوع پر مزید احادیث کے مطالعہ کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ کیجیے:

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریقۂ نماز

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: صاحبزادہ بدر عالم جان