سوال نمبر:1051
میں اس سے پہلے سوال نمبر دس سو چالیس 1040 کر چکا ہوں اسی حوالے سے میں نے یہ پوچھنا ہے کہ کیا یہ کلمات کفر میں آتے ہیں اور کیا اس سے مسلمان اسلام سے خارج ہو جاتا ہے، اسکا نکاح ٹوٹ جاتا ہے جیسا کہ حضرت الیاس عطار قادری رحمہ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ اسطرح کے الفاظ کفریہ کلمات کہلاتے ہیں اور اس سے نکاح اور بیعت دونوں ٹوٹ جاتے ہیں۔ مسلمان کو توبہ کے بعد از سر نو اسلام قبول کر کے تجدید نکاح اور تجدید بیعت کرنی چاہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ایسا ہے اور اگر کسی شخص نے ایسے الفاظ کہے ہوں اور تجدید ایمان اور تجدید نکاح نہ کیا ہو اور اس دوران اسکی بیوی حاملہ ہو جائے تو کیا ایسی اولاد ناجائز ہو گی۔ یا شرعی طور پر اسکی یہ اولاد جائز ہوگی۔ براہ مہربانی تفصیل سے جواب دیجئے گا۔
- سائل: محمد عابدمقام: سیالکوٹ، پاکستان
- تاریخ اشاعت: 21 جون 2011ء
جواب:
یہ ایسے کلمات نہیں ہیں جس سے انسان کافر ہوجاتا ہے اور نہ ہی اس سے انسان کا نکاح ٹوٹتا ہے اور نہ ہی بیت پر کوئی اثر پڑتا ہے۔ لوگوں میں اکثریت ایسی ہیں جو غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے ایسے کلمات کہتی ہے۔ اس سے بچنا چاہیے اور صبر کرنا چاہیے اللہ تبارک و تعالیٰ رحم فرمائے گا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔