قطعی الثبوت اور قطعی الدلالۃ نصوص سے کیا مراد ہے؟


سوال نمبر:1025
قطعی النص اور قطعی الدلالۃ، ظنی النص اور قطعی الدلالۃ کو علیحدہ علیحدہ مثال دے کر وضاحت فرماد یں۔ شکریہ

  • سائل: تنویر حسینمقام: پتوکی، پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 14 جون 2011ء

زمرہ: فقہ اور اصول فقہ

جواب:
امام عابدین شامی فرماتے ہیں:

ان الادلة السمعية اربعة :

الاول : قطعی الثبوت والدلالة کنصوص القرآن المفسره و المحکمة والسنة المتواتره التی مفهومها قطی.

الثانی : قطعی الثبوت و ظنی الدلالة کالآت الموولة.

الثالث : عکسه کاخبار الاهاد التی مفهوما قطعی.

الرابع : ظنيهما کاخبار الآحاد التی مفهوها ظنی.

فبالاول يثبت الفرض والحرام و بالثانی والثالث الواجب والکراهة التحريم و بالرابع السنة والمستحب.

(ابن عابدين، رد المختار، ج : 1، ص : 70)

بیشک ادلۃ سمعیۃ چار ہیں :

پہلی دلیل : قطعی الثبوت اور قطعی الدلالۃ جیسے قرآن کی وہ مفسر اور محکم آیات اور احادیث متواتر جن کا مفہوم قطعی ہو۔

دوسری دلیل : قطعی الثبوت اور ظنی الدلالۃ جیسے مؤول آیات۔

تیسری دلیل : اس کے برعکس ہے (یعنی ظنی الثبوت اور قطعی الدلالۃ) جیسے وہ اخبار احاد جن کا مفہوم قطعی ہے۔

چوتھی دلیل : ظنی الثبوت اور ظنی الدلالۃ ہے جیسے وہ اخبار احاد جو ظنی الدلالۃ ہیں۔

لہذا فرض اور حرام پہلی کی دلیل سے ثابت ہیں، واجب اور مکروہ تحریمی دوسری اور تیسری قسم کی دلیل سے ثابت ہوتے ہیں جبکہ چوتھی قسم کی دلیل سے سنت اور مستحب وغیرہ ثابت ہوتے ہیں۔

مزید مطالعہ کے لیے آپ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی کتاب "الحکم الشرعی" کا مطالعہ کریں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: صاحبزادہ بدر عالم جان