ثقافتی حملہ سے کیا مراد ہے اور اس کا تدارک کیسے ممکن ہے؟


سوال نمبر:75
ثقافتی حملہ سے کیا مراد ہے اور اس کا تدارک کیسے ممکن ہے؟

  • تاریخ اشاعت: 19 جنوری 2011ء

زمرہ: معاشرت

جواب:

مغربی تہذیب و ثقافت کی صورت میں ہونے والے حملے سے مراد ثقافتی حملہ ہے، جس کے زیر اثر نوجوان نسل کے معاشی اور سماجی تصورات زندگی بدل رہے ہیں۔ اخلاقی، عائلی، سماجی اور معاشرتی قدریں کمزور پڑتی جا رہی ہیں اور نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ فحاشی، عریانی اور بے راہروی کے سیلاب نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس کے نتیجے میں معاملہ اس حد تک بگاڑ کا شکار ہو گیا ہے کہ بیٹیاں اپنے باپ دادا اور بزرگوں کے سامنے سر ڈھانپنا تو درکنار بے حجاب گھومنے پھرنے میں ذرہ بھر شرم محسوس نہیں کرتیں۔ مغربی تہذیب و ثقافت کی یلغار نے تمام معاشرتی قدروں کو خطرناک اور نام نہاد جدت پسندی کا رخ دے دیا ہے، نتیجتاً شریعت کی گرفت کمزور پڑنے کے باعث ہماری زندگی سے اسلامیت یوں رخصت ہوئی کہ ہم محض نام کے مسلمان رہ گئے اور ہمارا اسلامی تشخص ہماری مسلمانی پر بقول اقبال یوں آہ و زاری کر رہا ہے۔

وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

ثقافتی حملہ سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے قدم کے طور پر امت مسلمہ کے اندر بالعموم اور نوجوان نسل کے اندر بالخصوص حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مطہرہ اور سنت طیبہ سے محبت اور قلبی وابستگی پیدا کی جائے اور عملی اسلام کا وہ چہرہ ان کے سامنے پیش کیا جائے جو ان کے لئے کشش کا باعث ہو اور جس سے یہ واضح ہو کہ پیغمبر انسانیت اور ہادی برحق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلیٰ، بامقصد زندگی اور تہذیب و ثقافت کے بہترین نمونے اور اخلاقی قدروں کا جو نظام عطا کیا وہ عملی سطح پر دنیا سے افضل ہے۔ آج وقت کی اہم ترین ضرورت نئی نسل کو اسلام کے اصولوں اور تہذیبی و ثقافتی اقدار سے روشناس کرانا ہے۔ اسلامی اقدار کو کمزور کرنے میں جہاں اسلام دشمن طاقتیں بر سر عمل ہیں وہاں بعض والدین بھی منفی کردار ادا کر رہے ہیں کیونکہ وہ اپنے بچوں کی بچپن سے ہی ذہنی تربیت غیر اسلامی تہذیبی سانچوں میں ڈھال کر کرتے ہیں۔ ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے جب لوہا گرم ہو تو اسے جس طرح چاہے پگھلا کر موڑ سکتے ہیں لیکن اگر آپ کی غفلت کی وجہ سے لوہا ٹھنڈا ہو کر جم گیا تو پھر اس میں کسی طرح کی تبدیلی ممکن نہیں۔ اس کے علاوہ سب سے اہم ذمہ داری ہمارے علماء، ائمہ مساجد، ادیب، شعراء اور اہل قلم پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اس قیمتی اثاثہ کی حفاظت کریں جو اسلام کی نایاب ترین اقدار اور ثقافت میں پایا جاتا ہے ان پر لازم آتا ہے کہ وہ اپنے کلام، وعظ اور اپنے دیوان میں اسلام کی روایات و اقدار کو قرآن و سنت کی روشنی میں پروان چڑھائیں۔

جیسا کہ ارشاد گرامی ہے :

کُلُّکُمْ رَاعٍ وَ کُلُّکُمْ مَسْؤْلٌ عَنْ رَعْيتِه.

’’تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘

بخاري، الصحيح، کتاب النکاح، 5 : 1988، رقم : 4892

ہر شخص اپنے دائرہ کار کے اندر جوابدہ ہے۔ کوئی گھر کا سربراہ ہے تو اس سے گھر کے معاملات کے بارے میں اور اگر کسی شخص کا اختیار محلے، قصبے، شہر، صوبے اور ملکی سطح تک ہے تو اس کی جواب طلبی کا دائرہ ان تمام سطحوں تک پھیلا ہوا ہو گا اور۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام کے عملی نظام کو گھر کی سطح سے لے کر اجتماعی اور ملکی سطح پر نافذ کر دیا جائے تاکہ دور جدید کی تہذیب و ثقافت کی تند و تیز آندھیوں سے نوجوان نسل کے ایمان کی بجھتی ہوئی شمع کو محفوظ کیا جا سکے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔