کیا متکبر کے سامنے تکبر اختیار کرنا عبادت ہے؟


سوال نمبر:6128
السلام علیکم مفتی صاحب! ایک جملہ بہت مشہور کہ ’التكبر على المتكبر عبادة‘ کیا یہ ثابت ہے؟ متکبر کے سامنے کِبر اختیار کرنے کا کیا حکم ہے؟

  • سائل: واصف ذیبمقام: گجرخان
  • تاریخ اشاعت: 17 دسمبر 2022ء

زمرہ: رذائلِ اخلاق  |  معاشرت

جواب:

تکبر کا رویہ اختیار کرنا گناہِ کبیرہ ہے، قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر تکبر کی مذمت فرمائی ہے اور تکبر کرنے کو ابلیس لعین، فرعون، قارون، ہامان، ابولہب اور اس قماش کے دیگر افراد و اقوام کا رویہ قرار دیا ہے۔ اس لیے متکبرین سے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا گیا ہے، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِينَ.

(النَّحْل، 16: 23)

بیشک وہ سرکشوں متکبّروں کو پسند نہیں کرتا۔

متکبرین کے انجام کے متعلق فرمایا ہے:

فَادْخُلُواْ أَبْوَابَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا فَلَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ.

(النَّحْل،16 : 29)

پس تم دوزخ کے دروازوں سے داخل ہو جاؤ، تم اس میں ہمیشہ رہنے والے ہو، سو تکبّر کرنے والوں کا کیا ہی برا ٹھکانا ہے۔

اسی طرح تکبر کی مذمت میں رسول اللہ ﷺ کے بھی متعدد ارشادات موجود ہیں جن میں آپ ﷺ نے تکبر کی مذمت فرمائی ہے اور رائی کے دانے کے برابر بھی دل میں تکبر رکھنے والے کو جنت سے محروم قرار دیا ہے۔ آپ ﷺ نے متکبرین کا اخروی ٹھکانہ دوزخ کو قرار دیتے ہوئے فرمایا:

عَنْ حَارِثَةَ بْنِ وَهْبٍ الخُزَاعِيِّ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: أَلاَ أُخْبِرُكُمْ بِأَهْلِ الجَنَّةِ؟ كُلُّ ضَعِيفٍ مُتَضَاعِفٍ، لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللهِ لَأَبَرَّهُ. أَلاَ أُخْبِرُكُمْ بِأَهْلِ النَّارِ؟ كُلُّ عُتُلٍّ، جَوَّاظٍ، مُسْتَكْبِرٍ.

بخاری، الصحیح، كِتَابُ الأَدَبِ، بَابُ الكِبْرِ، رقم الحدیث: 6071

حضرت حارثہ بن وہب خزاعیؓ نے بیان کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں جنت والوں کی خبر نہ دوں؟ (تو جنت والے یہ ہیں:) ہر کمزور (اور) تواضع اختیار کرنے والا۔ اگر یہ لوگ (اللہ کا نام لے کر) قسم کھالیں تو اللہ ان کی قسم کو پوری کرتا ہے۔ کیا میں تمہیں دوزخ والوں کی خبر نہ دوں؟ (تو دوزخ والے یہ ہیں:) ہر تند خو، اکڑ کر چلنے والا اور متکبر۔

درج بالا آیات و روایت سے واضح ہوا کہ تکبر کرنا اسلامی تعلیمات کی رو سے گناہِ کبیرہ، مذموم اور لائقِ عتاب فعل ہے۔ تکبر کرنا کسی بھی صورتحال میں جائز نہیں ہے، خواہ کوئی تکبر کا مظاہرہ ہی کیوں نہ کر رہا ہو۔ اس حوالے سے جو روایت سائل نے لکھی ہے کہ ’التکبر علیٰ المتکبر صدقۃ‘ یہ زبان زدِ عام ہے، مگر یہ غلط طور پر رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب ہے، یہ حدیث نہیں ہے اور نبی اکرم ﷺ سے قطعاً ثابت نہیں ہے۔ علامہ العجلونی نے اسے اپنی کتاب ’كشف الخفاء و مزيل الإلباس عما إشتهر من الأحاديث على ألسنة الناس‘ میں اسے حدیثِ نمبر 1011 پر ’التکبر علیٰ المتکبر صدقۃ‘ یعنی متکبر کے سامنے تکبر کرنا نیکی ہے، کے الفاظ سے بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ مختلف الفاظ کے ساتھ لوگوں میں مشہور ہے جیسے ’التكبر على المتكبر حسنة‘ اور ’التكبر على المتكبر عبادۃ‘ وغیرہ، مگر یہ حدیث نہیں ہے۔ اسی طرح ملاعلی قاری نے ’الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة‘ میں اس روایت کے بارے میں کہا ہے کہ ’لا اصل لہٗ‘ یعنی اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ اس لیے ان الفاظ کو رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کرنا رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھنے کے مترادف ہے، جس کے بارے میں سخت وعید آئی ہے۔

اگرچہ مذکورہ الفاظ بطور حدیث غیرثابت شدہ اور رسول اللہ کی طرف غلط منسوب ہیں، اور تکبر کا کسی صورت میں جواز نہیں دیا گیا تاہم متکبر کے سامنے خود کو ذلیل کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔ حضرت ابوذرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

مَنْ أَعْطَى الذُّلَّ مِنْ نَفْسِهِ طَائِعًا غَيْرَ مُكْرَهٍ، فَلَيْسَ مِنَّا.

طبراني، المعجم الأوسط، 1: 151، رقم الحدیث: 471

جس شخص نے بِلا اِکراہ (یعنی مجبور کئے بغیر) خود کو ذلت پر پیش کیا، وہ ہم سے نہیں۔

اس لیے اسلام میں اگرچہ تکبر کی مذمت آئی ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ انسان خود کو ذلالت پر پیش کر دے۔ تکبر اور ذلت دونوں انتہائیں ہیں، ان میں حدِاعتدال کو اپنانا ہی درست اور اسلام کا مطلوب رویہ ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔