کیا فقہائے احناف کے نزدیک خون اور بَول سے مقدس کلمات لکھنا جائز ہے؟


سوال نمبر:5967
فقہ حنفی میں خون اور پیشاب کے ساتھ سورۃ فاتحہ لکھنا جائز ہے۔ رد المحتار میں ہے: لَوْ رَعَفَ فَكَتَبَ الْفَاتِحَةَ بِالدَّمِ عَلَى جَبْهَتِهِ وَأَنْفِهِ جَازَ لِلِاسْتِشْفَاءِ ، وَبِالْبَوْلِ أَيْضًا (رد المحتار لابن عابدین: ج1 ص406 مطلب فی التداوی بالمحرم) ترجمہ: اگر کسی کی نکسیر جاری ہوئی اور اس نے اس خون سے اپنی پیشانی اور ناک پر فاتحہ لکھ لی تو شفاء کے حصول کے لیے یہ جائز ہے، اسی طرح پیشاب کے ساتھ بھی ایسا کرنا جائز ہے۔ تسلی بخش جواب فرمائیں تاکہ اشکال رفع ہو جائے۔

  • سائل: سید ذوق العارفینمقام: راولپنڈی
  • تاریخ اشاعت: 17 اکتوبر 2022ء

زمرہ: علومِ قرآن  |  فقہ اور اصول فقہ

جواب:

خون یا پیشاب کے ساتھ سورہ فاتحہ، قرآنِ مجید کی کوئی آیت یا مقدس کلمات لکھنا قطعاً جائز نہیں ہے۔ بعض فقہاء نے جو جزی قائم کی ہے کہ شفایابی کا یقین ہو تو ایسا عمل کرسکتے ہیں، یہ اُن کی رائے ہے، انہوں نے خود اس کو غیرمنصوص قرار دیا ہے۔ ان فقہائے کرام کی اس رائے سے اختلاف کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ انہوں نے بھی اس عمل کا حکم نہیں دیا بس ایک مسئلہ بیان کیا ہے کہ اگر کوئی جانتا ہو کہ اس عمل کے کرنے سے کسی تکلیف یا بیماری سے آرام آ جائے گا پھر ایسا کیا جاسکتا ہے۔ یہ اُن فقہاء کا مؤقف ہے، ہمارے نزدیک یہ عمل جائز نہیں ہے، بلکہ یہ مقدس کلمات کی توہین ہے۔ علامہ غلام رسول سعیدی رحمۃ اللہ علیہ اس مسئلہ کے حوالے سے رقم طراز ہیں:

میں کہتا ہوں کہ خون یا پیشاب کے ساتھ سورۃ فاتحہ لکھنے والے کا ایمان خطرے میں ہے۔ اگر کسی آدمی کو روزِ روشن سے بھی زیادہ یقین ہو کہ اس عمل سے اس کو شفاء ہو جائے گی تب بھی اُس کا مر جانا اس سے بہتر ہے کہ وہ خون یا پیشاب کے ساتھ سورہ فاتحہ لکھنے کی جرأت کرے۔ اللہ تعالیٰ اُن فقہاء کو معاف کرے، بال کی کھال نکالنے اور جزئیات مستنبط کرنے کی عادت کی وجہ سے اُن سے یہ قولِ شنیع سرزد ہوگیا، ورنہ اُن کے دلوں میں قرآنِ مجید کی عزت اور حرمت بہت زیادہ تھی۔

سعیدی، شرح صحیح مسلم، 6: 557، لاہور، فرید بک سٹال

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری