کیا بیوہ اپنی مرضی سے نکاح کرسکتی ہے؟


سوال نمبر:5965
السلام علیکم محترم مفتی صاحب! میں ایک شرعی سوال پوچھنا چاہ رہی ہوں۔ گزارش ہے کہ میری عمر چالیس سال سے کچھ زیادہ ہے۔ میرے چار بچے ہیں جوکہ سکول اور کالج جاتے ہیں۔ 5 سال پہلے میرے میاں ہارٹ اٹیک کی وجہ سے فوت ہو گئے، مالی ضروریات کو پوری کرنے کے لیے میں نے ایک ادارے میں نوکری کر لی۔  میرے دفتر میں 48 سالہ ایک صاحب نمازی پرہیزگار اور شفیق انسان ہیں، جو میری دفتری امور میں بہت معاونت کرتے اور میرے میاں کے دوست بھی تھے۔ شادی شدہ ہیں اور ان کے بھی بچے ہیں۔ مجھ سے شادی کا تقاضہ کیا اور حقیقت میں شادی میری بھی ضرورت تھی اور کسی قسم کے گناہ سے بچنے کے لیے میں خود شادی کرنا چاہتی تھی۔ میں اپنے بچوں کے ساتھ علیحدہ گھر میں رہتی ہوں، میں نے اپنے ماں باپ سے اس بارے میں بات کرنے کا ارادہ کیا تھا لیکن اس دوران میرے والدین بیمار ہو گئے، ایسی حالت میں میں نے ان سے بات نہ کی اور نہ کسی بہن بھائی کی اس بارے کوئی توجہ تھی۔ اپنے بچوں کو بھی اعتماد میں لینا مشکل تھا۔ بہرحال میں نے کچھ دینی حلقوں سے رائے کے بعد دو گواہ کی موجودگی میں اُن سے نکاح کر لیا۔ لیکن نہ تو میں نے اپنے بچوں کو بتایا اور نہ اپنی والدین جو کہ دونوں اب فوت ہو چکے ہیں یا بھائی کو کہ جن کو بتانے سے میرے لیے بہت مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ جیسا کہ ہمارے معاشرے میں بیوہ عورت کو نہ تو کوئی اپناتا اور اگر بیوہ چاہے بھی تو معاشرے کے لوگ اس بارے نہیں سوچتے۔ ایک بات مزید بتا دوں کہ میں اپنے رشتہ ازدواج کا ذکر اللہ پاک اور دو گواہوں کے علاوہ کسی سے نہیں کر سکتی تھی۔ آپ سے درخواست ہےکہ راہنمائی فرمائیں کہ کیا میرا یہ عمل شرعی ہے یا شریعت مجھے اجازت دیتی ہی کہ میں بیوہ ہونے کے ناطے اپنے معاملات کی بہتری کےلیے خود  نکاح کر لیا؟ مزید یہ کہ مزید بچے پیدا نہیں کرسکتی۔

  • سائل: بنت حوامقام: لاہور
  • تاریخ اشاعت: 17 اکتوبر 2022ء

زمرہ: نکاح

جواب:

جب کسی عورت کو طلاق ہو جائے یا اس کا شوہر فوت ہو جائے تو ایسی عورت کو عدت کے بعد نئے نکاح سے منع کرنا جائز نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایسی عورتوں کو نکاح سے روکا جاتا ہے یا ان کا یہ عمل اچھا نہیں سمجھا جاتا مگر شرعی طور یہ عمل قابلِ مذمت ہے اور عورتوں کو برائی پر مجبور کرنے کے مترادف ہے۔ اس لیے اگر کوئی شخص اپنی والدہ، ہمشیرہ، بیٹی یا کسی اور رشتہ دار کو دوسری جگہ مناسب رشتہ دستیاب ہونے کے باوجود نکاح کرنے سے روکتا ہے تو ایسے شخص کا عمل حکم الہٰی کے خلاف ہوتا ہے کیونکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ ذَلِكَ يُوعَظُ بِهِ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكُمْ أَزْكَى لَكُمْ وَأَطْهَرُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَo

’’اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آپہنچیں تو جب وہ شرعی دستور کے مطابق باہم رضامند ہو جائیں تو انہیں اپنے (پرانے یا نئے) شوہروں سے نکاح کرنے سے مت روکو، اس شخص کو اس امر کی نصیحت کی جاتی ہے جو تم میں سے اللہ پراور یومِ قیامت پر ایمان رکھتا ہو، یہ تمہارے لیے بہت ستھری اور نہایت پاکیزہ بات ہے، اور اللہ جانتا ہے اور تم (بہت سی باتوں کو) نہیں جانتے۔‘‘

البقرة، 2: 232

اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ایسی مطلقہ عورتیں جن کا تجدید نکاح کر کے مسئلہ حل ہو سکتا ہے انہیں اپنے سابق شوہروں کے ساتھ نکاح کرنے اور طلاق مغلظہ والی عورتوں کو دستور کے مطابق نئے نکاح کرنے سے روکنے والوں کی مذمت کی ہے یعنی ایسی عوروتوں کے اولیا کو مخاطب کیا ہے کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں تو انہیں نئے نکاح کرنے سے نہ روکیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو بہت ستھری اور پاکیزہ بات اس لیے قرار دیا کہ جب حلال عمل سے روکا جائے گا تو قبیح فعل فروغ پائے گا جس سے برائی عام ہو گی۔ لہٰذا اس معاملہ میں ہمیں اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے سرخم تسلیم کرنا چاہیے کیونکہ جو اللہ جانتا ہے ہم وہ نہیں جانتے۔ اسی سورہ کی آگے آنے والی ایک آیت مبارکہ میں بیوہ عورتوں کے بارے میں ارشاد فرمایا:

وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌo

’’اور تم میں سے جو فوت ہو جائیں اور (اپنی) بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ اپنے آپ کو چار ماہ دس دن انتظار میں روکے رکھیں، پھر جب وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آپہنچیں تو پھر جو کچھ وہ شرعی دستور کے مطابق اپنے حق میں کریں تم پر اس معاملے میں کوئی مؤاخذہ نہیں، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے اچھی طرح خبردار ہے۔‘‘

البقرة، 2: 234

یعنی عورت مطلقہ ہو یا بیوہ اسے نئے نکاح کے معاملہ میں روکنا نہیں چاہیے بلکہ اسے اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے دینا چاہیے۔ اگر کہیں مناسب رشتہ مل جائے تو اسے دستور کے مطابق نیا نکاح کرنے کا حق دینا چاہیے اور اس میں تاخیر بھی نہیں کرنا چاہے۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ سیدنا حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں مجھے نبی کريم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

يَا عَلِيُّ ثَلَاثٌ لَا تُؤَخِّرْهَا الصَّلَاةُ إِذَا أَتَتْ وَالْجِنَازَةُ إِذَا حَضَرَتْ وَالْأَيِّمُ إِذَا وَجَدْتَ لَهَا كُفُؤًا.

’’اے علی! تین کاموں میں دیر نہ کرو، نماز میں جب اس کا وقت ہو جائے، جنازہ جب حاضر ہو، اور بیوہ عورت کے نکاح میں جب اس کا مناسب رشتہ مل جائے۔‘‘

الترمذي، السنن، كتاب الصلاة، باب ما جاء في الوقت الأول من الفضل، 1: 320، الرقم: 171، بيروت: دار إحياء التراث العربي

مطلقہ اور بیوہ عدت کے بعد اپنی مرضی سے بھی اپنا نیا نکاح کرنے کا حق رکھتی ہیں کیونکہ احناف کے ہاں نابالغ لڑکی کے نکاح کے لیے ولی بنانا شرط ہے جبکہ عاقلہ بالغہ لڑکی نکاح کے معاملہ میں ولی کی نسبت خود مختار ہوتی ہے۔ یعنی وہ اپنے نکاح کا فیصلہ خود کر سکتی ہے احناف کا یہی موقف ہے جیسا کہ امام شمس الدین السرخسی نقل کرتے ہیں:

عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ امْرَأَةً زَوَّجَتْ ابْنَتَهَا بِرِضَاهَا فَجَاءَ أَوْلِيَاؤُهَا فَخَاصَمُوهَا إلَى عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَأَجَازَ النِّكَاحَ، وَفِي هَذَا دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ الْمَرْأَةَ إذَا زَوَّجَتْ نَفْسَهَا أَوْ أَمَرَتْ غَيْرَ الْوَلِيِّ أَنْ يُزَوِّجَهَا فَزَوَّجَهَا جَازَ النِّكَاحُ وَبِهِ أَخَذَ أَبُو حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى سَوَاءٌ كَانَتْ بِكْرًا أَوْ ثَيِّبًا إذَا زَوَّجَتْ نَفْسَهَا جَازَ النِّكَاحُ فِي ظَاهِرِ الرِّوَايَةِ سَوَاءٌ كَانَ الزَّوْجُ كُفُؤًا لَهَا أَوْ غَيْرَ كُفْءٍ فَالنِّكَاحُ صَحِيحٌ إلَّا أَنَّهُ إذَا لَمْ يَكُنْ كُفُؤًا لَهَا فَلِلْأَوْلِيَاءِ حَقُّ الِاعْتِرَاضِ.

’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے ایک واقعہ منقول ہے کہ ایک عورت نے اپنی بیٹی کا نکاح اس کی مرضی سے کر دیا تو اُس کے ولیوں کو علم ہوا تو انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اعتراض پیش کیا لیکن آپ علیہ السلام نے اس نکاح کو جائز قرار دیا۔ یہ فیصلہ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ جب کوئی عورت اپنا نکاح خود کر لے یا ولی کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو یہ حکم دے کہ وہ اس کا نکاح کر دے اور وہ شخص یعنی وکیل اس عورت کا نکاح کر دے تو ایسا نکاح جائز ہو گا۔ اور اسی دلیل سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے یہ حکم اخذ کیا ہے کہ عورت باکرہ ہو یا ثیبہ جب اپنا نکاح خود کر لے تو ایسا نکاح ظاہری روایات کے باعث جائز ہو گا خواہ شوہر اُس عورت کا کفو ہو یا غیر کفو، نکاح صحیح ہو جائے گا مگر یہ کہ اگر شوہر اس عورت کا کفو نہ ہو تو اولیاء کو اس نکاح پر حقِ اعتراض حاصل ہو گا ۔‘‘

السرخسي، المبسوط، كتاب النكاح، باب النكاح بغير ولي، 5: 10، بيروت: دار المعرفة

اور صاحب فتح القدیر فرماتے ہیں:

يَنْعَقِدُ نِكَاحُ الْحُرَّةِ الْعَاقِلَةِ الْبَالِغَةِ بِرِضَاهَا وَإِنْ لَمْ يَعْقِدْ عَلَيْهَا وَلِيٌّ بِكْرًا كَانَتْ أَوْ ثَيِّبًا.

’’آزاد، عقل مند اور بالغ عورت کا نکاح اس کی رضا سے ہو جاتا ہے خواہ اس کا ولی نہ کرے، چاہے کنواری ہو یا بیوہ۔‘‘

ابن الهمام، فتح القدير، باب الأولياء والأكفاء، 3: 157، سكهر، الباكستان: المكتبة النورية الرضوية

امام زین الدین ابن نجیم نے بڑا واضح موقف دیا ہے:

نَفَذَ نِكَاحُ حُرَّةٍ مُكَلَّفَةٍ بِلَا وَلِيٍّ لِأَنَّهَا تَصَرَّفَتْ فِي خَالِصِ حَقِّهَا وَهِيَ مِنْ أَهْلِهِ لِكَوْنِهَا عَاقِلَةً بَالِغَةً وَلِهَذَا كَانَ لَهَا التَّصَرُّفُ فِي الْمَالِ وَلَهَا اخْتِيَارُ الْأَزْوَاجِ.

’’آزاد مکلف لڑکی کا نکاح ولی کے بغیر جائز ہے کیونکہ یہ تصرف اس کا خالص حق ہے اور وہ اس حق کو استعمال کرنے کی اہل ہے کہ عاقلہ وبالغہ ہے، اسی لیے اسے مال میں تصرف کا حق ہے اور اسے شادی کا اختیار ہے۔‘‘

ابن نجيم، البحرالرائق، كتاب النكاح، باب الأولياء والأكفاء، 3: 117، بيروت: دار المعرفة

علامہ محمد بن علی المعروف علاء الدین حصکفی فرماتے ہیں:

فَنَفَذَ نِكَاحُ حُرَّةٍ مُكَلَّفَةٍ بِلَا رِضَا وَلِيٍّ.

’’آزاد مکّلف عورت کا نکاح ولی کی رضا مندی کے بغیر بھی جائز ہے۔‘‘

حصكفي، الدر المختار، كتاب النكاح، باب الولي، 3: 55، بيروت: دار الفكر

مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ عاقلہ وبالغہ لڑکی اپنا نکاح خود کر سکتی ہے مگر یہ نکاح اعلانیہ ہونا چاہیے تاکہ غیر مرد وعورت کو اکٹھے دیکھ کر لوگ بدگمانی کا شکار نہ ہوں، متعدد روایات بھی نکاح کی تشہیر کرنے پر دلالت کرتی ہیں۔ اسی بناء پر بعض فقہاء کرام نکاح کے موقع پر دف بجانے اور گیت گانے کو لازم قرار دیتے ہیں۔ ان فقہاء کرام کی اس رائے میں یہی مقصد پنہاں ہے کہ نکاح کی خبر اہل علاقہ تک پہنچ جائے کیونکہ جب لوگوں کو کسی جوڑے کے نکاح کے بارے میں معلوم ہو گا تو وہ انہیں آتے جاتے دیکھ کر منفی رائے قائم نہیں کریں گے ورنہ لوگوں کے ذہن میں شک طرح طرح کا گزرے گا۔ نکاح کی تشہیر کرنے کی حکمتوں میں سے یہ ایک اہم حکمت ہے۔ اس موقف کی تائید میں بہت سی احادیث نقل کی جا سکتی ہیں لیکن اختصار کی خاطر چند احادیث درج کی جا رہی ہیں۔ جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

أَعْلِنُوا هَذَا النِّكَاحَ، وَاجْعَلُوهُ فِي المَسَاجِدِ، وَاضْرِبُوا عَلَيْهِ بِالدُّفُوفِ.

’’نکاح کی تشہیر کرو، اسے مسجدوں میں کرو اور نکاح (شادی) پر دف بجاؤ۔‘‘

الترمذي، السنن، كتاب النكاح، باب ماجاء في إعلان النكاح، 3: 398، الرقم: 1089

ایک روایت میں دف کی بجائے غربال کا لفظ آیا ہے۔ لغت میں غربال چھلنی کو کہتے ہیں یہ چونکہ گولائی میں دف یا ڈھول کی طرح ہوتی ہے۔ بعض اہل لغت نے چغل خور کو بھی غربال سے تشبیہ دی ہے کیونکہ وہ بھی ہر جگہ ڈھول کی طرح بجتا رہتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

أَعْلِنُوا هَذَا النِّكَاحَ، وَاضْرِبُوا عَلَيْهِ بِالْغِرْبَالِ.

’’اس نکاح کا اعلان کرو، اور اس پر ڈھول بجاؤ‘‘

ابن ماجه، السنن، كتاب النكاح، باب إعلان النكاح، 1: 611، الرقم: 1895، بيروت: دار الفكر

ایک روایت میں دف بجانے اور اشعار کہنے کو حلال وحرام کے درمیان فرق گردانا گیا ہے۔ یعنی شادی لوگوں کو بتا کر کی جاتی ہے اس کا اعلان کیا جاتا ہے جبکہ غلط کاری کی کوئی بھی تشہیر نہیں کرتا بلکہ اسے جھپایا جاتا ہے کہ کسی کو خبر نہ ہو جائے۔ حضرت محمد بن حاطب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

فَصْلُ مَا بَيْنَ الحَرَامِ وَالحَلَالِ، الدُّفُّ وَالصَّوْتُ.

’’حلال (نکاح) و حرام (زنا) کے درمیان فرق دف بجانا اور گانا ہے۔‘‘

الترمذي، السنن، كتاب النكاح، باب ماجاء في إعلان النكاح، 3: 398، الرقم: 1088

ان روایات کے مطابق نکاح کی خبر دینا لازم ہے اگر کوئی دف اور گیت کے ذریعہ سے نکاح کی تشہیر نہ بھی کرے تو اسے کم از کم نکاح کو چھپانا نہیں چاہیے کیونکہ یہ ایک حلال عمل ہے، اس کو چھپا کر لوگوں کے ذہن میں شکوک وشبہات پیدا کرنا جائز نہیں ہے۔ قانوناً بھی نکاح کو چھپانا اسی لیے جرم قرار دیا گیا ہے۔ صورتِ مسئلہ کے مطابق حرام کاری سے بچنے کے لیے آپ نے دوگواہوں کی موجودگی میں جو نکاح کیا ہے شرعی طور پر نکاح منعقد ہو گیا ہے۔ آپ لوگوں کا عمل جائز ہے لیکن شریعت میں اس عمل کو پسند نہیں کیا جاتا کیونکہ نکاح کو خفیہ رکھنا شرعاً حوصلہ افزا عمل نہیں ہے جس کی حکمت اوپر بیان کردی ہے اور قانوناً بھی نکاح چھپانا جرم ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری