ایمان کا ادنیٰ و اعلیٰ درجہ کیا ہے؟


سوال نمبر:58
ایمان کا ادنیٰ و اعلیٰ درجہ کیا ہے؟

  • تاریخ اشاعت: 19 جنوری 2011ء

زمرہ: عقائد  |  ایمانیات

جواب:

حدیث جبریل میں احسان کے مفہوم میں ایمان کے ادنیٰ و اعلیٰ درجے کو بہت عمدگی سے بیان کیا گیا ہے۔ جب جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا کہ احسان کیا ہے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اَنْ تَعْبُدَ اﷲِ کَأنَّکَ تَرَاه، فَاِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاهُ فَاِنَّه يَرَاکَ.

’’(ایمان کا اعلیٰ درجہ یعنی احسان یہ ہے) کہ تم اللہ کی عبادت و بندگی اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو۔ اور (ایمان کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ) اگر تم اس کو نہیں دیکھتے تو (یہ یقین رکھو کہ) وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔‘‘

بخاري، الصحيح، کتاب الايمان، باب سوال جبرئيل عليه السلام، 1 : 27، رقم : 50

حدیث جبریل میں مذکور لفظ عبادت سے اگر کسی کو یہ گمان ہو کہ عبادت اور بندگی سے مراد وہی امور ہیں جنہیں عرف عام میں عبادات سے تعبیر کیا جاتا ہے مثلاً نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ وغیرہ اور انہی عبادات کا بجا لانا انسانی زندگی کا نصب العین ہے تو یہ تصور غلط ہے۔ قرآنی تصورِ عبادت اور اسلامی مفہوم بِرّ اس قدر وسیع ہے کہ یہ انسان کی فکری اور عملی زندگی کے تمام گوشوں کو محیط ہے۔ اسلام کا پیش کردہ تصورِ بندگی انسانی زندگی کو درج ذیل خصائص کا جامع دیکھنا چاہتا ہے۔

  1. صحتِ عقائد : انسان کا عقیدہ صحیح ہونا چاہے جس میں اللہ تعالیٰ، آخرت، فرشتوں، آسمانی کتابوں اور انبیاء و رسل پر ایمان لانا ضروری ہے۔
  2. محبتِ الٰہی : اللہ سے ٹوٹ ٹوٹ کر محبت کرنی چاہیے جس کا ثبوت خلق خدا کے حق میں نفع بخشی، فیض رسانی اور مالی ایثار و قربانی کے ذریعے فراہم کیا جائے۔
  3. مالی ایثار : اللہ تعالیٰ نے جو رزق عطا کیا ہے اس سے حاصل کردہ وسائلِ دولت، مستحق رشتہ داروں، یتامیٰ و مساکین، غرباء و فقراء اور غلامی و محکومی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے انسانوں کی آزادی، معاشی بحالی اور آسودگی پر خرچ کیے جائیں۔
  4. صحتِ اعمال : تمام احکام شریعت یعنی نماز، روزہ وغیرہ ارکان اسلام کی پابندی کی جائے۔
  5. ایفائے عہد : ضروری ہے کہ انسان جو عہد اور فیصلہ کرے عزم و ہمت کے ساتھ اس پر ثابت قدم رہے۔
  6. صبر و تحمل : چاہے کتنے ہی مصائب و شدائد اور آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑے انسان کو چاہیے کہ تمام غیر معمولی حالات میں بھی صبر و تحمل اور عزم و استقلال کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے۔
  7. جہاد : اعلائے کلمۃ اللہ اور حق کی سربلندی کی خاطر کسی قسم کی مخالفت اور مخاصمت سے نہ گھبرائے، خواہ راہ جہاد میں مخالفین سے کھلی جنگ کی صورت ہی کیوں نہ ہو۔

مذکورہ بالا خصائص، اجزائے دین کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان تمام اجزاء کا مجموعہ ’’نیکی اور اصل عبادت‘‘ ہے۔ گویا اصل عبادت اور بندگی ایک اکائی کا نام ہے اور زندگی کے جملہ معاملات مذہبی ہوں یا دنیوی اس کُل کے مختلف اجزاء ہیں۔ جس طرح کسی اکائی سے کوئی ایک جز اگر الگ ہو جائے تو اسے کُل کا نام نہیں دیا جا سکتا اسی طرح عبادت الٰہیہ پر محیط زندگی کے کسی ایک پہلو کو دوسروں سے لا تعلق کر کے کامل بندگی کا نام نہیں دیا جا سکتا۔

لہٰذا ایمان کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ انسان پوری زندگی اس طرح بسر کرے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے اور ایمان کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ انسان اپنی پوری زندگی اس طرح بسر کرے کہ اللہ تعالیٰ اس کو دیکھ رہا ہے۔

ایمان کے اعلیٰ اور ادنیٰ مدراج کو درج ذیل حدیث مبارکہ بھی واضح کرتی ہے، جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

مَنْ رَأي مِنْکُم مُنکَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِه، فَاِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِه، فَاِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِه، وَ ذَالِکَ اَضْعَفُ الْاِيْمَان.

مسلم، الصحيح، کتاب الايمان، باب بيان کون النهي عن المنکر من الايمان، 1 : 69، رقم : 49

’’تم میں سے جو شخص خلافِ شریعت کام دیکھے تو اپنے ہاتھوں سے اس کی اصلاح کرے، اور اگر وہ اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو زبان سے اس کا ردّ کرے، اور اس کی بھی استطاعت نہ رکھتا ہو تو دل سے اسے برا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔‘‘

مذکورہ حدیث مبارکہ میں ایمان کے درجات کو بڑے ہی احسن پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔