سودی نظامِ مالیات میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:5788
السلام علیکم! کیا سرکار کی نوکری میں سرکار کی طرف سے سود اور امداد ملا معاوضہ بطور اجرت لینا (کیونکہ عوم الناس کو پتہ ہے کہ کچھ بیچا ہی نہیں اور نا ہی قوم کو کوئی تسلی بخش سروسز کی فراہم کی گئی، بشمول مطالعہ میں سلطنت کے وسیع تر سودی بینک کے کاروبار سمیت بیرونی غیر مسلم ممالک اور اقوام سے امداد کا بخوبی پتہ ہونا) اور اسکے بعد اس ملازم کے شرعی احکام مثلا" زکواۃ، خیرات، صدقہ، قربانی اور دیگر عبادات کے متعلق کیا کہتے ہیں؟ مزید دوسرا حصہ یہ کہ کچھ لوگوں کا ماننا ہے اسی بتائی گئی نسبت سے سرکار کے معاوضے سے انسان گزر اوقات تو کرتا ہے لیکن مہینے کے آخر پر کام کرنے یا نا کرنے پر تنخواہ کا یقین اور توکل نا قائم رہنے کے سبب اپنی فوقیت یا اندرونی مغروریت کے جزبے کے ساتھ خوشحال نہیں رہ پاتا جبتک دل میں ترک معاش یا بہتری معاش کی تلاش کی دل میں پختہ نیت یا ارادہ نا رکھے اور اللہ سے دعا کرتا رہے. آپ کیا فرماتے ہیں پیسے کی ملاوٹ اور توکل کے مسئلے پر؟

  • سائل: ذاکر عامر حسینمقام: اسلام آباد
  • تاریخ اشاعت: 29 اگست 2020ء

زمرہ: مالیات

جواب:

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ حرام ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدنی کی تاثیر ہوتی ہے جو انسان کی روحانی کیفیت پر اثر انداز ہوتی ہے۔ جب کسی معاشرے کا نظامِ مالیات سودی معیشت اور حرام ذرائع آمدن پر مشتمل ہو تو اس کے مہلک اثرات سے پورا معاشرہ ہی متاثر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ پاک ہے اور وہ پاک چیزیں ہی پسند فرماتا ہے، اس لیے اس کی راہ میں پاکیزہ اموال ہی خرچ کیئے جانے چاہئیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّ اللهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا، وَإِنَّ اللهَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِينَ بِمَا أَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِينَ، فَقَالَ: {يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا، إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ} [المؤمنون، 23: 51] وَقَالَ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ} [البقرة، 2: 172] ثُمَّ ذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ، يَمُدُّ يَدَيْهِ إِلَى السَّمَاءِ، يَا رَبِّ، يَا رَبِّ، وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ، وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ، وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ، وَغُذِيَ بِالْحَرَامِ، فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لِذَلِكَ؟

اللہ تعالیٰ پاک ہے اور وہ پاک چیز کے سوا اور کسی چیز کو قبول نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو وہی حکم دیا ہے جو رسولوں کو حکم دیا تھا اور فرمایا: {اے رُسُلِ (عظام!) تم پاکیزہ چیزوں میں سے کھایا کرو (جیسا کہ تمہارا معمول ہے) اور نیک عمل کرتے رہو، بے شک میں جو عمل بھی تم کرتے ہو اس سے خوب واقف ہوں}، اور فرمایا:{اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں عطا کی ہیں} پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے، اس کے بال غبار آلود ہیں وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہتا ہے یا رب! یا رب! اور اس کا کھانا پینا حرام ہو، اس کا لباس حرام ہو اور اس کی غذا حرام ہو تو اس کی دعا کہاں قبول ہو گی؟

  1. مسلم، الصحيح، كتاب الزكاة، باب قبول الصدقة من الكسب الطيب وتربيتها، 2: 703، رقم: رقم: 1015، بيروت: دار إحياء التراث العربي
  2. أحمد بن حنبل، المسند، 2: 328، رقم: 8330، مصر: مؤسسة قرطبة
  3. ترمذي، السنن، كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم، باب ومن سورة فاتحة الكتاب، 5: 220، رقم: 2989، بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربي

درج بالا حدیث سے واضح ہوا کہ حرام ذرائع سے حاصل ہونے والے رزق سے انسان کی روحانیت بھی متاثر ہوتی ہے اور ایسا رزق راہِ خدا میں خرچ کرنے سے اس کی قبولیت مشکوک ہو جاتی ہے۔ لیکن مجموعی طور پر پورے نظامِ مالیات کی تطہیر کرنا اور بیرونی قرضوں سے چھٹکارا حاصل کرنا انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی و حکومتی ذمہ داری ہے اور صاحبانِ اختیار اگر بغیر کسی عذر کے اس میں بدلاؤ نہیں لاتے تو وہ بروزِ قیامت خدا کے حضور جوابدہ ہیں۔ عام آدمی کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ سودی بینکاری کو بدل دے، انفرادی طور پر اس سے اجتناب کرنا بھی آسان نہیں کہ اس صورت انسان میں پورے نظامِ مالیات کٹ کر رہ جاتا ہے۔ گویا عام آدمی کے لیے یہ ایک اضطراری حالت ہے اور کے پاس اس کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ اس لیے موجودہ مالیاتی نظام میں ملازمت کرنے کی اجازت ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْـزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللّهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَلا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ.

اس نے تم پر صرف مُردار اور خون اور سؤر کا گوشت اور وہ جانور جس پر ذبح کے وقت غیر اللہ کا نام پکارا گیا ہو حرام کیا ہے، پھر جو شخص سخت مجبور ہو جائے نہ تو نافرمانی کرنے والا ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا تو اس پر (زندگی بچانے کی حد تک کھا لینے میں) کوئی گناہ نہیں، بیشک اللہ نہایت بخشنے والا مہربان ہے۔

البقرہ، 2: 173

مزید برآں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ ملازمین سرکاری ملازمت کے دوران جو تنخواہ لیتے ہیں وہ سود نہیں بلکہ حقِ محنت ہے، ان کا تعلق اپنی محنت کے معاوضہ کے ساتھ ہے۔ جو ادارے سودی نظام چلا رہے ہیں یا اس کو مضبوط کر رہے ہیں یا سودی لین دین کر رہے ہیں اس کی جوابدہی معاشرے کے ہر فرد سے نہیں بلکہ اُن اداروں کے منتظمین سے ہوگی۔ اس لیے تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہ کو ان کے لیے حرام یا مالِ ناپاک قرار نہیں دیا جاسکتا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں گوشت پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا:

عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِلَحْمٍ، قَالَ: مَا هَذَا؟، قَالُوا: شَيْءٌ تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ، فَقَالَ: هُوَ لَهَا صَدَقَةٌ، وَلَنَا هَدِيَّةٌ.

یہ کیسا ہے؟ عرض کی گئی کہ بریرہ کو صدقہ دیا گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ اس کے لیے صدقہ اور ہمارے لیے ہدیہ ہے۔

أبو داود، السنن، كتاب الزكاة، باب الفقير يهدي للغني من الصدقة، 2: 124، الرقم: 1655، بيروت: دارالفكر

درج بالا حدیث میں جو گوشت حضرت بریرہ کو صدقہ دیا گیا تھا جب انہوں نے دوسروں کو کھلایا تو دوسروں کے لیے وہ گوشت صدقہ نہیں بلکہ حضرت بریرہ کی طرف سے ہدیہ تھا۔ اسی طرح جو سرکاری ادارے سودی لین دین کرتے ہیں اس کا وبال انہی پر ہے، اگر وہ اُنہی رقوم میں سے سرکاری ملازمین کو حقِ محنت دے رہے ہیں تو ملازمین کے لیے یہ رقوم ان کی محنت کی جائز اجرت ہے۔ ان کے لیے یہ سود یا مالِ حرام نہیں ہے۔ ملازمین اسی مال میں سے زکوٰۃ و صدقات دیں تو یہ بالکل جائز اور درست ہے۔

سوال کے دوسرے حصے میں سائل کا یہ کہنا کہ ماہانہ تنخواہ پر یقین رکھنا توکل کے خلاف ہے، یہ سائل کا شبہ ہے جس کے ازالہ کے توکل کا شرعی مفہوم سمجھنا ضروری ہے۔ توکل ترک اسباب کا نام نہیں اور نہ کسی مؤمن کو زیب دیتا ہے کہ وہ صرف اسباب پر بھروسہ کرلے اور مسبب الاسباب کو بھول جائے، اختیارِ اسباب تو ضروری ہے ہی مگر اس کے ساتھ دل کی گہرائیوں سے یہ یقین ٹپک رہا ہو کہ ان اسباب میں تاثیر ڈالنا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا فعل ہے، یہ توکل علی اللہ ہے۔ اسباب کو ترک کر کے توکل کرنا سنت انبیاء علیہم السلام اور تعلیماتِ قرآن کریم کے خلاف ہے۔ توکُّل دراصل انسان کی باطنی کیفیت ہے جو دل کی گہرائیوں سے اٹھتی ہے اور عمل کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے فیصلوں پر اعتماد کا دوسرا نام ہے۔ اس لیے ملازمین کی ملازمت حصولِ رزق کا سبب ہے اور یہ ملنے کی امید، اس سے روز مرہ خراجات کی تکمیل توکل ہی کا حصہ ہے۔ اس لیے لگی بندھی تنخواہ کو توکل کے منافی قرار نہیں دیا جاسکتا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری