کیا بد دعائیں قبول ہوتی ہیں؟


سوال نمبر:5458
السلام علیکم! ناحق دعا قبول ہوگی؟

  • سائل: ملا داؤدمقام: ایران
  • تاریخ اشاعت: 05 جولائی 2019ء

زمرہ: ایمان بالقدر

جواب:

قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

ادْعُواْ رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ.

تم اپنے رب سے گڑگڑا کر اور آہستہ (دونوں طریقوں سے) دعا کیا کرو، بیشک وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

الْأَعْرَاف، 7: 55

مفسرین کرام نے اس آیتِ مبارکہ کو آدابِ دعا کے ضمن میں لکھا ہے اور اس میں مذکور حد سے بڑھنے کو کسی کے بارے میں ناحق دعا بتایا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی کے لیے ناحق مرنے، نقصان یا مصیبت کی دعا کرنا اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے۔ تاہم جس طرح خیر کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اسی طرح بد دعائیں یعنی کسی آدمی کے خسارے، مصیبت یا پریشانی کے لیے کی گئی دعاؤں کی قبولیت کا بھی احتمال ہوتا ہے۔ اسی لیے کسی کو بد دعا دینے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ ہوسکتا ہے وہ وقت دعا کی قبولیت کا ہو اور وہ بد دعا قبول کر لی جائے۔

اسلامی آدابِ معاشرت میں کسی مسلمان کے لیے ناحق بد دعا کرنا جائز نہیں، بلکہ کسی پر دنیا یا آخرت میں مصیبت پڑنے کی تمنا کرنا بھی ناجائز ہے‘ سوائے اس صورت کے کہ ظالم یا جابر کے لیے بد دعا کی جائے۔ ارشادِ ربانی ہے:

لاَّ يُحِبُّ اللّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلاَّ مَن ظُلِمَ وَكَانَ اللّهُ سَمِيعًا عَلِيمًاO

اﷲ کسی (کی) بری بات کا بآوازِ بلند (ظاہراً و علانیۃً) کہنا پسند نہیں فرماتا سوائے اس کے جس پر ظلم ہوا ہو (اسے ظالم کا ظلم آشکار کرنے کی اجازت ہے)، اور اﷲ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔

النساء، 4: 148

مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ ظالم و جابر کے حق میں مظلوم و مقہور کو بد دعا کرنے کی اجازت دی گئی ہے ورنہ کسی کو ناحق بد دعا دینا ممنوع ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری