کیا مناسک حج کی ادائیگی میں‌ تقدیم و تاخیر پر دم لازم آتا ہے؟


سوال نمبر:5402
محترم جناب مفتی صاحب السلام علیکم ورحمۃ‌ اللہ! میں ایک طالب علم ہوں۔ درج ذیل مسئلہ کے متعلق آپ کی رہنمائی درکار ہے۔ افعال حج میں‌ تقدیم و تاخیر کے متعلق نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ذی شان لا حرج لاحرج سے امام شافعی اورصاحبین نفی وجوب دم مراد لیتے ہیں اورامام اعظم ابو حنیفہ نفی اثم۔ ان دونوں‌ اقوال کی وضاحت اور مفتیٰ بہ قول کے متعلق وضاحت فرما دیں۔ جزاک اللہ امید ہے کہ آپ ضرور رہنمائی فرمائیں گے۔

  • سائل: محمد سلیمانمقام: گوجرانوالہ، پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 27 جون 2019ء

زمرہ: حج

جواب:

افعالِ حج میں تقدیم و تاخیر کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لاحرج لاحرج کا ارشادِ گرامی حج فرض ہونے کے بعد دوسرے حج کا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ صحابہ کرام کا یہ پہلا حج تھا۔ یہ صدرِ اسلام کا زمانہ ہے جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین احکام و مناسک سیکھ رہے تھے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان مناسک کی تقدیم و تاخیر کے معاملے سختی کرنے کی بجائے درگزر کیا۔ بعد ازاں جب احکام و مناسک کی ترتیب واضح ہوگئی تو جمرہ عقبہ، رمی، قربانی اور حلق و قصر میں ترتیب قائم رکھنا واجب ہو گیا اور ان میں تقدیم و تاخیر یا ترتیب توڑنے پر دم لازم آتا ہے۔ مناسک کی ادائیگی میں تقدیم و تاخیر پر وجوبِ دم امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا موقف ہے جبکہ صاحبین اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہم وجوب دم کے قائل نہیں ہیں۔ اس نفی وجوب دم کا معنیٰ ہے کہ دم واجب نہیں اور نفی اثم کا معنیٰ ہے کہ اس پر گناہ نہیں۔ دونوں اقوال میں سے مفتیٰ بہ قول امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ اس مسئلہ کی مزید وضاحت کے شرح معانی الآثار المعروف طحاوی شریف کا باب ’من قدّم من حجه نسکا قبل نسک‘ ملاحظہ کیجیے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری