خلع کے صورت میں‌ رجوع کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:4793
السلام علیکم ورحمۃ اللہ! میرا سوال یہ ہے کہ ميری بیوی نے والدین کی باتوں میں آ کر خلع کا کیس دائر کر دیا تو عدالت نے تقریباً 3 مہینے پہلے خلع کی ڈگری جاری کر دی ہے۔ میں بیرون ملک مقیم ہوں تو والد کو وکیل بنایا تھا، ساری کاروائی انہوں نے کی تھی اور اب بیوی رجوع کی طرف مائل ہو گئی ہے۔ تو اب رجوع کا کیا طریقہ کار ہوگا؟ براہ مہربانی وضاحت فرما دیں.

  • سائل: محمد ذیشان عالممقام: مسقط، عمان
  • تاریخ اشاعت: 29 مارچ 2018ء

زمرہ: خلع کے احکام

جواب:

شرعاً خلع کا مطلب یہ ہے کہ اگر شادی کے بعد عورت کسی بھی وجہ سے شوہر کے ساتھ نہ رہنا چاہے تو وہ شوہر کو کچھ مال دے کر بذریعہ عدالت علیحدگی کروا سکتی اس کو خلع مبارات کہتے ہیں اور دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ شوہر حقوق پورے نہ کرے اور طلاق بھی نہ دے اس صورت میں عورت عدالت میں اپنا دعوی پیش کر کے تنسیخ نکاح کروا سکتی ہے جیسے حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ اور ان بیوی کا معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا، حضرت ثابت کی بیوی کو ان سے کوئی شکایت نہیں تھی، لیکن وہ انہیں پسند نہیں کرتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی علیحدگی کروا دی۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ:

أَنَّ امْرَأَةَ ثَابِتِ بْنِ قَیْسٍ أَتَتِ النَّبِيَّ فَقَالَتْ یَا رَسُولَ ﷲِ ثَابِتُ بْنُ قَیْسٍ مَا أَعْتِبُ عَلَیْهِ فِي خُلُقٍ وَلَا دِینٍ وَلَکِنِّي أَکْرَهُ الْکُفْرَ فِي الْإِسْلَامِ. فَقَالَ رَسُولُ ﷲِ  أَتَرُدِّینَ عَلَیْهِ حَدِیقَتَهُ. قَالَتْ نَعَمْ. قَالَ رَسُولُ ﷲِ  أقْبَلْ الْحَدِیقَةَ وَطَلِّقْهَا تَطْلِیقَةً.

ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں عرض کی یارسول اللہ! میں ثابت بن قیس کے دین یا اخلاق پر کوئی اعتراض نہیں کرتی نہ عیب لگاتی ہوں، لیکن مجھے اسلام میں رہ کر کفران نعمت پسند نہیں (یعنی خاوند پسند نہیں)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس سے جو باغ تم نے حق مہر میں لیا ہے وہ اسے واپس کردوگی؟ وہ بولیں جی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (حضرت ثابت سے) فرمایا: اپنا باغ قبول کرو اور اسے ایک طلاق دے دو۔

  1. بخاري، الصحیح، 5: 2021، رقم: 4971، بیروت، لبنان: دار ابن کثیر الیمامة
  2. نسائي، السنن الکبری، 3: 369، رقم: 5657، بیروت، لبنان: دار الکتب العلمیة

اور یکطرفہ تنسیخ کی مثال اس حدیث مبارکہ سے ملتی ہے کہ حضرت خنساء بنتِ خِذام اَنصاریہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں روایت ہے کہ:

إِنَّ أَبَاهَا زَوَّجَهَا وَهِيَ ثَیِّبٌ فَکَرِهَتْ ذَلِکَ. فَأَتَتِ النَّبِيَّ فَرَدَّ نِکَاحَهَا.

ان کے والد ماجد نے ان کی کہیں شادی کر دی جبکہ وہ بیوہ تھیں، مگر اُنہیں یہ شادی ناپسند تھی۔ سو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کا نکاح منسوخ فرما دیا۔

  1. بخاري، الصحیح، 6: 2547، رقم: 6546
  2. أبي داود، السنن، 2: 233، رقم: 2101، دار الفکر

مذکورہ بالا سے معلوم ہوا جب بیوی کسی وجہ سے اپنا مقدمہ عدالت میں پیش کرے تو عدالت اس کا نکاح منسوخ کر سکتی ہے۔ خلع اور تنسیخ سے طلاق بائن واقع ہو تی ہے جیسا کہ حدیثِ مبارکہ میں ہے:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِىَّ صلى الله عليه وسلم جَعَلَ الْخُلْعَ تَطْلِيقَةً بَائِنَةً.

حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ آلہ وسلم سے بیان کیا ہے کہ خلع سے طلاق بائن ہو جاتی ہے۔

دار قطني، السنن، 4: 45، رقم: 134، بيروت: دار المعرفة

لہٰذا عدالتی فیصلہ سے ایک طلاق بائن واقع ہو کر نکاح ختم ہو چکا ہے، اب اگر آپ باہمی رضامندی سے رجوع کرنا چاہتے ہیں تو دوبارہ نکاح کر کے بطورِ میاں بیوی رہ سکتے ہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری