کاغذی زر کی قدر میں کمی کی بناء پر قرض کی اصل رقم سے زائد کا مطالبہ کرنا کیسا ہے؟


سوال نمبر:4645
السلام علیکم مفتی صاحب! موجودہ معیشت میں‌ کرنسی کی قدر میں کمی ایک لازمی امر ہے۔ تو کیا آج 100 دے کر ہم دس سال کے بعد زیادہ رقم لے سکتے ہیں؟ کیا ایسا ممکن ہے کہ 100 روپے کی قوت خرید کو سونے کے ساتھ ملا کر دیکھ لیا جائے۔ جتنا سونا آج سو روپے سے خریدا جاسکتا ہو اسی کو معیار بنا کر دس سال بعد بھی سونے کی اتنی مقدار کی مالیت ہی واپس لی جائے؟ اگر وہ زائد ہو تو کیا سود کے زمرے میں آئے گی؟

  • سائل: احمد نوازمقام: اعظم گڑھ
  • تاریخ اشاعت: 14 مارچ 2019ء

زمرہ: مالیات

جواب:

زر کی قدر میں کمی کی وجہ سے یا نفع کی خاطر قرض پر بطورِ شرط منفعت لینا سود ہے۔ پہلے سود کی جامع تعریف دیکھی جانی چاہیے تاکہ مسئلہ کو سمجھنے میں آسانی ہو جائے اور قاری کو کسی قسم کا ابہام نہ رہے۔

سود کو عربی زبان میں ربا کہتے ہیں۔ ربا سے مراد معینہ مدت کے قرض پہ وہ اضافہ ہے جس کا مطالبہ قرض خواہ قرض کی ادائیگی میں مدت میں اضافے کے عوض مقروض سے کرتا ہے اور یہ اضافہ پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے۔ ذیل میں اس کی وضاحت دی گئی ہے:

لغت میں ربا کا معنی زیادتی، بڑھوتری اور بلندی ہے۔ ابو القاسم الحسین بن محمد اصفہانی کہتے ہیں:

وَالرِّبَا الزَّيَادَةُ عَلَى رَأْسِ الْمَالِ لَكِنْ خُصَّ فِي الشَّرْعِ بِالزِّيَادَةِ عَلَى وَجْهِ دُوْنَ وَجْهِ.

اصل مال پر زیادتی کو ربا کہتے ہیں لیکن شریعت میں ہر زیادتی کو ربا نہیں کہتے بلکہ وہ زیادتی جو مشروط ہو، سود ہے، شرط کے بغیر اگر مقروض ، دائن کو خوشی سے کچھ زائد مال دے تو جائز ہے سود نہیں۔

أصبهاني، المفرادات في غريب القرآن، 1: 187، لبنان: دار المعرفة

ابو منصور محمد بن احمد الازہری، محمد بن مکرم بن منظور الافریقی اور محمد مرتضیٰ الحسینی الزبیدی فرماتے ہیں:

وَالرِّبَا؛ رَبَوَانِ: فَالْحَرَامُ كُلُّ قَرْضٍ يُؤْخَذُ بِهِ أَكْثَرُ مِنْهُ، أَوْ تُجَرُّ بِهِ مَنْفَعَةَ، فَحَرَامٌ.وَالَّذِي لَيْسَ بِحرَامٍ أَنْ يَهَبَهُ الْإِنْسَانُ يَسْتَدْعِي بِهِ مَا هُوَ أَكْثَرُ، أَوْ يُهْدِيَ الهَدِيَّة لِيُهدَى لَهُ مَا هُوَ أكثرُ مِنْهَا.

زیادتی دو قسم پر ہے، حرام وہ قرض ہے جو زیادتی کے ساتھ وصول کیا جائے یا اس سے فائدہ (بطور شرط) حاصل کیا جائے، وہ حرام ہے اور جو حرام نہیں وہ یہ ہے کہ مقروض مدت مقررہ پر اصل رقم پر بطور ہبہ کچھ اضافی مال قرض خواہ کو غیر مشروط دیدے۔

  1. الأزهري، تهذيب اللغة، 15: 196، بيروت: دار إحياء التراث العربي
  2. ابن منظور، لسان العرب، 14: 304، بيروت: دار صادر
  3. الزبيدي، تاج العروس، 38: 118، دار الهداية

ابو السعادات المبارک بن محمد الجزری لکھتے ہیں:

وَهُوَ فِي الشَّرْعِ الزَّیَادَةُ عَلَی أَصْلِ الْمَالِ مِنْ غَیْرِ عَقْدِ تَبَایُع.

شریعت میں رباء کا مطلب تجارتی سودے کے بغیر اصل مال پر اضافی منافع وصول کرنا۔

ابن الأثير الجزري، النهاية، 2: 192، بيروت: المكتبة العلمية

احمد بن علی الرازی الجصاص ابو بکر فرماتے ہیں:

وَهُوَ الْقَرْضُ الْمَشْرُوطُ فِيْهِ الْأَجَلُ وَزِيَادَةُ مَالٍ عَلَى الْمُسْتَقْرِضِ.

اور جس قرض میں مدت متعین کے ساتھ قرض لینے والے کو اضافی رقم دینا مشروط ہو۔

جصاص، أحكام القرآن، 2: 189، بيروت: دار إحياء التراث العربي

مذکورہ بالا تعریفات سے معلوم ہوا کہ قرض میں دیئے ہوئے اصل مال پر جو اضافی رقم مدت کے مقابلہ میں شرط اور تعیین کے ساتھ لی جائے وہ سود ہے۔ جبکہ سود قطعی طور پر حرام ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے بھی تجارت اور سود میں فرق بیان کیا ہے۔ حکم الہٰی کے مطابق تجارت کو حلال اور سود کو واضح طور پر حرام قرار دیا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانْتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ وَمَنْ عَادَ فَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَo يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍo

جو لوگ سُود کھاتے ہیں وہ (روزِ قیامت) کھڑے نہیں ہو سکیں گے مگر جیسے وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان (آسیب) نے چھو کر بدحواس کر دیا ہو، یہ اس لیے کہ وہ کہتے تھے کہ تجارت (خرید و فروخت) بھی تو سود کی مانند ہے، حالاں کہ اﷲ نے تجارت (سوداگری) کو حلال فرمایا ہے اور سود کو حرام کیا ہے، لہٰذا جس کے پاس اس کے رب کی جانب سے نصیحت پہنچی سو وہ (سود سے) باز آگیا تو جو پہلے گزر چکا وہ اسی کا ہے، اور اس کا معاملہ اﷲ کے سپرد ہے، اور جس نے پھر بھی لیا سو ایسے لوگ جہنمی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ اور اﷲ سود کو مٹاتا ہے (یعنی سودی مال سے برکت کو ختم کرتا ہے) اور صدقات کو بڑھاتا ہے (یعنی صدقہ کے ذریعے مال کی برکت کو زیادہ کرتا ہے)، اور اﷲ کسی بھی ناسپاس نافرمان کو پسند نہیں کرتا۔

البقرة، 2: 275، 276

اور احادیث مبارکہ میں بھی سودی لین دین سے واضح طور پر منع کیا گیا ہےاور اس موضوع پر بہت سی احادیث مبارکہ ہیں لیکن یہاں مسئلہ سے متعلقہ چند نصوص نقل کی گئی ہیں۔ جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

الدِّينَارُ بِالدِّينَارِ لَا فَضْلَ بَيْنَهُمَا، وَالدِّرْهَمُ بِالدِّرْهَمِ لَا فَضْلَ بَيْنَهُمَا.

اشرفی کے بدلے میں اشرفی دو تو اضافہ مت کرو اور روپے کے بدلے میں روپے دو تو اضافہ مت کرو۔

مسلم، الصحیح، كتاب المساقاة، باب الصرف وبيع الذهب بالورق نقدا، 3: 1212، رقم: 1588، بیروت، لبنان: دار إحیاء التراث العربي

اسی طرح دیگر ہم جنس اشیاء کا آپس میں تبادلہ کرتے وقت برابر برابر رکھنے کا حکم دیا گیا ہے جبکہ اضافہ کرنے سے واضح طور پر منع کر دیا گیا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لاَ تَبِيعُوا الذَّهَبَ بِالذَّهَبِ إِلَّا سَوَاءً بِسَوَاءٍ، وَالفِضَّةَ بِالفِضَّةِ إِلَّا سَوَاءً بِسَوَاءٍ، وَبِيعُوا الذَّهَبَ بِالفِضَّةِ، وَالفِضَّةَ بِالذَّهَبِ كَيْفَ شِئْتُمْ.

سونے کو سونے کے بدلے نہ بیچو مگر برابر برابر، چاندی کو چاندی کے بدلے نہ بیچو مگر برابر برابر لیکن سونے کو چاندی کے بدلے یا چاندی کو سونے کے بدلے جس طرح چاہو فروخت کر دیا کرو۔

بخاري، الصحيح، كتاب البيوع، باب بيع الذهب بالذهب، 2: 761، رقم: 2066، بيروت، لبنان: دار ابن كثير اليمامة

اور حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ، وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ، وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ، وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ، وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ، وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ، مِثْلًا بِمِثْلٍ، سَوَاءً بِسَوَاءٍ، يَدًا بِيَدٍ، فَإِذَا اخْتَلَفَتْ هَذِهِ الْأَصْنَافُ، فَبِيعُوا كَيْفَ شِئْتُمْ، إِذَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ.

سونے کی بیع سونے کے عوض، اور چاندی کی بیع چاندی کے عوض اور گندم کی بیع گندم کے عوض اور جو کی بیع جو کے عوض اور کھجور کی بیع کھجور کے عوض اور نمک کی بیع نمک کے عوض برابر برابر اور نقد بہ نقد ہو اور جب یہ اقسام مختلف ہوجائیں تو پھر جس طرح چاہو بیچو بشرطیکہ نقد بہ نقد ہو۔

  1. مسلم، الصحیح، كتاب المساقاة، باب الصرف وبيع الذهب بالورق نقدا، 3: 1211، رقم: 1587
  2. أحمد بن حنبل، المسند، 5: 320، رقم: 22779، مصر: مؤسسة قرطبة

اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ وَزْنًا بِوَزْنٍ، مِثْلًا بِمِثْلٍ، وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ وَزْنًا بِوَزْنٍ، مِثْلًا بِمِثْلٍ، فَمَنْ زَادَ أَوِ ازْدَادَ فَقَدْ أَرْبَى.

سونے کو سونے کے بدلے میں تول کر برابر برابر فروخت کرو اور چاندی کو چاندی کے بدلے میں تول کر برابر برابر فروخت کرو، جس شخص نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا تو سود ہو گا۔

نسائي، السنن، كتاب البيوع، بيع الدرهم بالدرهم، 4: 29، رقم: 6161، بيروت: دار الكتب العلمية

مذکورہ بالا احادیث مبارکہ سے واضح ہے کہ ہم جنس اشیاء جیسے روپے کے بدلے روپے، سونے کے بدلے سونے، چاندی کے بدلے چاندی اور دیگر ہم جنس اشیاء کے آپس میں تبادلہ کی صورت میں کمی بیشی کرنا جائز نہیں ہے، جبکہ مختلف اشیاء کا تبادلہ نقد بہ نقد کمی بیشی کے ساتھ جائز ہے۔ اس لیے ہم جنس اشیاء کے تبادلے یا قرض کی مدت میں سہولت کے عوض میں اضافہ لینا جائز نہیں ہے۔

کسی مجبور کو قرض حسنہ دے کر اُس کے اٹکے ہوئے کاموں میں اُس کی مدد کرنا رضائے خدا کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ اس عمل کے ذریعہ کسی مغموم دل کو شاد کیا جاسکتا ہے اور بہتی ہوئی کسی آنکھ سے آنسو صاف کئے جاسکتے ہیں۔کسی ضرورت مند کو بوقتِ حاجت پر قرض دینے کو قرآنِ مجید نے خالقِ کائنات کو قرض دینا قرار دیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

‌مَّن ذَا الَّذِی یقْرِضُ اللهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیضَـَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا کَثِیرَةً وَاللهُ یقْبِضُ وَیبْصُـطُ وَ إِلَیه‌ِ تُرْجَعُون‌َ.

ہے کوئی ایسا جو خدا کو قرض حسنہ دے تاکہ خدا اسے کئی گُنا کرکے واپس کرے؟ خدا ہی تنگی کرتا ہے اور وہی کشادگی دیتا ہے۔ اور (تم سب) اسی کی طرف پلٹائے جاؤگے۔

القرآن، البقرۃ، 2: 245

ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:

وَ أَقْرِضُوا اللهَ قَرْضاً حَسَناً.

اور اللہ کو قرضۂ حسنہ دو۔

القرآن، مزمل، 20

اسلام نے قرض حسنہ کو نیکی اور صدقہ قرار دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کاغذی زر کی قیمت میں کمی واقع ہوتی رہتی ہے لیکن شریعت میں اس خوف کے باعث سود کے جواز کو قرار نہیں دیا جاسکتا۔ علامہ ابن عابدین شامی سے سوال کیا گیا:

رَجُلٍ اسْتَقْرَضَ مِنْ آخَرَ مَبْلَغًا مِنْ الدَّرَاهِمِ وَتَصَرَّفَ بِهَا ثُمَّ غَلَا سِعْرُهَا فَهَلْ عَلَيْهِ رَدُّ مِثْلِهَا؟ الْجَوَابُ: نَعَمْ وَلَا يُنْظَرُ إلَى غَلَاءِ الدَّرَاهِمِ وَرُخْصِهَا.

اگر کوئی آدمی دوسرے سے دراہم کسی خاص مقدار میں لے کر ان میں تصرف کرے (اس کو خرچ کرے) پھر ان دارہم کا نرخ بڑھ جائے تو کیا اس پر ان جیسے دراہم کا واپس کرنا لازم ہے؟ جواب: ہاں (ان جیسے دراہم واپس کرے گا) اور اس صورت میں دراہم کی ارزانی اور مہنگائی کو نہیں دیکھا جائے گا۔

ابن عابدین، العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية، 1: 279، دار المعرفة

انہوں نے ردالمحتار میں بھی اسی موضوع پر اپنا موقف بیان کیا ہے:

وَإِنْ اسْتَقْرَضَ دَانِقَ فُلُوسٍ أَوْ نِصْفَ دِرْهَمِ فُلُوسٍ، ثُمَّ رَخُصَتْ أَوْ غَلَتْ لَمْ يَكُنْ عَلَيْهِ إلَّا مِثْلُ عَدَدِ الَّذِي أَخَذَهُ، وَكَذَلِكَ لَوْ قَالَ أَقْرِضْنِي عَشَرَةَ دَرَاهِمَ غَلَّةٍ بِدِينَارٍ، فَأَعْطَاهُ عَشَرَةَ دَرَاهِمَ فَعَلَيْهِ مِثْلُهَا، وَلَا يُنْظَرُ إلَى غَلَاءِ الدَّرَاهِمِ، وَلَا إلَى رُخْصِهَا.

اور اگر دانق فلوس (سکے) یا آدھے درہم کے فلوس قرض لیے، پھر یہ سستے ہو گئے یا مہنگے ہو گئے تو اس (مقروض) پر اتنے ہی فلوس دینے لازم ہیں اور اسی طرح اگر کہا کہ مجھے دس درہم ایک دینار کے مقابلے میں قرض دے دو تو اس کو دس درہم دے دیئے تو اس پر اس کے مثل دراہم ادا کرنا لازم ہوں گے اور دراہم مہنگے یا سستے ہونے کو نہیں دیکھا جائے گا۔

ابن عابدین، ردالمحتار، 5: 162، بيروت: دار الفكر للطباعة والنشر

اسی طرح علامہ ابن نجیم بیان کرتے ہیں:

رَبُّ الدَّيْنِ إذَا ظَفِرَ من جِنْسِ حَقِّهِ من مَالِ الْمَدْيُونِ على صِفَتِهِ فَلَهُ أَخْذُهُ بِغَيْرِ رِضَاهُ وَلَا يَأْخُذُ خِلَافَ جِنْسِهِ كَالدَّرَاهِمِ وَالدَّنَانِيرِ.

قرض خواہ جب مقروض کے مال میں سے اپنے حق کی جنس کے لینے پر قادر ہو جائے تو اُسے مقروض کی رضامندی کے بغیر بھی لینا جائز ہے، البتہ خلاف جنس سے نہیں لے سکتا۔ جیسے دراہم کے بدلے دنانیر لینادرست نہیں۔

  1. ابن نجيم، البحر الرائق، 7: 192، بيروت: دار المعرفة
  2. ابن عابدين، ردالمحتار، 7: 408

مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ قرض پر منفعت لینا سود ہے اور سود کا لین دین قطعی حرام ہے۔ چونکہ صورت مسئلہ میں بھی کسی کاروبار کے بغیر مدت کے مقابلہ میں زائد وصول کرنے کے بارے میں دریافت کیا گیا ہے، لہٰذا یہ سود ہے۔ اور ایسی وصولی شرعاً بالکل جائز نہیں ہے۔

اگر کسی شخص کو کاغذی زر میں کمی کا ڈر ہو تو وہ قرضِ حسنہ کا معاملہ کرنے کی بجائے عقدِ بیع کرلے اور بیع کی صورتوں میں نفع و نقصان میں قرض خواہ کے ساتھ شریک ہو جائے۔ اسلام نے عقدِ تبرع کی صورت میں نفع و زیادتی کا مطالبہ کرنے کی ممانعت کی ہے، اور قرضِ حسنہ عقدِ تبرع ہی کی صورت ہے۔ قرض حسنہ خالص نیکی ہے، اگر زر کی قدر میں کمی کے باعث دنیاوی مال میں کچھ کمی ہو بھی جائے تو آخرت میں اس نیکی کا اجر بہت بڑا ہے جو یقیناً اس دنیاوی نقصان کے مقابلے میں کہیں زیادہ فائدہ مند ثابت ہوگا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری