کیا مسجد کے اندر اذان دینا ممنوع ہے؟


سوال نمبر:4546
السلام علیکم! ارشاد فرما دیں کہ مسجد میں اذان دینا جائز ہے یا نہیں؟ جواز و عدم جواز بہر دو صورت دلائل سے واضح فرما دیں۔

  • سائل: محمد عظیممقام: گجرات، پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 16 دسمبر 2017ء

زمرہ: اذان

جواب:

معاذ اﷲ اذان کے الفاظ میں کوئی ایک بھی لفظ ایسا نہیں ہے جس کی بنا پر مسجد میں کھڑے ہو کر اذان دینا ناجائز قرار دیا جا سکے۔ اس لیے مسجد میں اذان دینے کے جواز کے دلائل کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ قرآن وحدیث میں بھی کہیں مسجد میں اذان دینے سے منع نہیں کیا گیا۔ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے کر لاؤڈ اسپیکر ایجاد ہونے تک مسجد سے باہر بلند مقام پر اذان کیوں دی جاتی تھی؟ اس کو سمجھنے کے لئے اذان دینے کا مقصد سمجھنا ضروری ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَإِذَا نَادَيْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ اتَّخَذُوهَا هُزُوًا وَلَعِبًا ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَعْقِلُونَo

اور جب تم نماز کے لیے (لوگوں کو بصورتِ اذان) پکارتے ہو تو یہ (لوگ) اسے ہنسی اور کھیل بنالیتے ہیں۔ یہ اس لیے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جو (بالکل) عقل ہی نہیں رکھتے۔

المائدة، 5: 58

دوسرے مقام پر فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَo

اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن (جمعہ کی) نماز کے لیے اذان دی جائے تو فوراً اللہ کے ذکر (یعنی خطبہ و نماز) کی طرف تیزی سے چل پڑو اور خرید و فروخت (یعنی کاروبار) چھوڑ دو۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

الجمعة، 62: 9

دونوں آیات مبارکہ میں اذان کا مقصد اہل ایمان کو نماز کی طرف بلانا ہے اور حدیث مبارکہ میں بھی یہی مقصد بیان کیا گیا ہے کہ طویل مشاورت کے بعد لوگوں کو نماز کے لئے جمع کرنے کا جو طریقہ اپنایا گیا وہ اذان دینا تھا جیسا کہ حضرت عبد اﷲ ابن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے:

كَانَ المُسْلِمُونَ حِينَ قَدِمُوا المَدِينَةَ يَجْتَمِعُونَ فَيَتَحَيَّنُونَ الصَّلاَةَ لَيْسَ يُنَادَى لَهَا، فَتَكَلَّمُوا يَوْمًا فِي ذَلِكَ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: اتَّخِذُوا نَاقُوسًا مِثْلَ نَاقُوسِ النَّصَارَى، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: بَلْ بُوقًا مِثْلَ قَرْنِ اليَهُودِ، فَقَالَ عُمَرُ: أَوَلاَ تَبْعَثُونَ رَجُلًا يُنَادِي بِالصَّلاَةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا بِلاَلُ قُمْ فَنَادِ بِالصَّلاَةِ.

مسلمان جب مدینہ منورہ میں آئے تو نماز کے لیے اندازے سے جمع ہو جایا کرتے اور اس کے لیے اعلان نہیں ہوتا تھا۔ ایک روز انہوں نے اس بارے میں گفتگو کی۔ بعض نے کہا کہ ہم نصاریٰ کی طرح ناقوس بجایا کریں اور بعض نے کہا یہودیوں کی طرح سینگھ بنا لو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیا ہم ایک آدمی کو مقرر نہ کر دیں جو نماز کا اعلان کیا کرے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے بلال! کھڑے ہو کر نماز کا اعلان کرو۔

  1. بخاري، الصحیح، كتاب الأذان، باب بدء الأذان، 1: 219، رقم: 579، بیروت: دار ابن کثیر الیمامة
  2. مسلم، الصحیح، كتاب الصلاة، بدء الآذان، 1: 285، رقم: 377، بیروت: دار احیاء التراث العربي

اذان کا مقصد لوگوں کو نماز کے لیے بلانے کا ایک احسن انداز ہے۔ لاؤڈ سپیکر کی ایجاد سے پہلے مسجد سے باہر مینارے پر اذان دینے سے اس بلاوے کو زیادہ لوگوں تک پہنچانا مقصود تھا جو آج لاؤڈ سپیکر کے ذریعے پورا ہو رہا ہے۔ جن فقہاء کرام نے صدیوں پہلے مسجد کے اندر اذان دینے کو مکروہ قرار دیا ہے وہ اسی بناء پر کہا ہے کہ مسجد کے اندر اذان دینے سے آواز کم لوگوں تک پہنچے گی جس سے اذان کا مقصد پورا نہیں ہوگا۔ اس لیے دورِ حاضر میں مسجد کے اندر کھڑے ہو کر اذان دینے میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے کیونکہ اصل مقصد احسن انداز میں پورا ہو رہا ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری