کیا صرف تحریری طلاق واقع ہوتی ہے؟


سوال نمبر:4265
السلام علیکم مفتی صاحب! میرا نام سونیا ہے اور میں طلاق کے متعلق ایک مسئلہ پوچھنا چاہتی ہوں۔ میرے شوہر نے 5 سال پہلے مجھے ایک طلاق دی لیکن پھر صلح‌ ہو گئی اور ہم لوگ اکٹھے رہنا شروع ہوگئے۔ پھر 4 سال کے بعد ہمارا جھگڑا ہوا تو انہوں نے ایک اور طلاق دی اور کہا کہ میرے گھر سے نکل جاؤ‘ میرا تمہارا کوئی رشتہ نہیں‌ ہے۔ اس کے بعد ہمارا جھگڑا ہوا تو کہنے لگے میری طرف سے تم فارغ ہو، کہانی ختم ہوئی، جاؤ نکل جاؤ میرے گھر سے۔ مفتی صاحب میں نے یہاں 3 مفتی صاحبان سے اس بارے میں دیافت کیا ہے تو سب نے طلاق کے واقع ہونے کا فتویٰ دیا، مگر میرے میکے اور سسرال والے یہ فتویٰ‌ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ غصے میں طلاق نہیں‌ ہوتی اور یہ بھی کہ طلاق جب تک لکھ کر نہ دی جائے نہیں ہوتی۔ مفتی صاحب میں بہت پریشان ہوں‘ ایک سال سے اسی اذیت سے گزر رہی ہوں۔ میرا شوہر مجھ سے ازدواجی تعلق بھی قائم کرتا ہے اسے روکنے کی کوشش کروں‌ تو برا بھلا کہتا ہے۔ براہ مہربانی راہنمائی فرما دیں۔ شکریہ

  • سائل: سونیا خانمقام: راولپنڈی
  • تاریخ اشاعت: 04 جولائی 2017ء

زمرہ: طلاق  |  مریض کی طلاق

جواب:

شدید غصے میں جب انسان اپنے ہوش و حواس کھو دیتا ہے اور اسے اپنے عمل‘ اس کے نتائج کا ادراک نہیں رہتا تو قانون، عقل اور شریعت اس بات پر متفق ہیں کہ اس وقت انسان پر احکام لاگو نہیں ہوتے۔ اگر آپ کے شوہر نے بھی ایسی ہی کیفیت میں طلاق دی تھی تو واقع نہیں ہوئی۔ اس کے برعکس اگر غصہ شدید نہیں تھا اور آپ کے شوہر ہوش و حواس میں‌ تھے تو طلاق واقع ہوچکی ہے۔ طلاق دیتے وقت ان کی کیا کیفیت تھی؟ اس کا فیصلہ آپ کے شوہر نے کرنا ہے اور اسی کے مطابق طلاق کے واقع ہونے یا نہ ہونے کا حکم ہوگا۔ مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے: کیا شدید غصے کی حالت میں طلاق کا پیغام (SMS) بھیجنے سے طلاق واقع ہوجائے گی؟

طلاق زبانی دی جائے یا لکھ کر‘ ہر دو صورت میں واقع ہوجاتی ہے۔ اگر بقائمِ ہوش و حواس شوہر نے زبانی طلاق دی ہے تو واقع ہوچکی ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری