کیا ایسا کھیل جائز ہے جس میں ہارنے والے‘ جیتنے والے کو کچھ دینے کا پابند ہو؟


سوال نمبر:4235
السلام علیکم مفتی صاحب! ہم کزن کبھی کبھی اکٹھے کھانا کھاتے ہیں۔ اس کے لیے ہم پیسے اکٹھے کرنے کی بجائے کوئی گیم کھیلتے ہیں جو ٹیم ہارتی کھانے کا سارا خرچہ اس پے ڈال دیتے ہیں۔ اس میں ہماری فیملیز بھی شامل ہوتی ہیں، گو کہ وہ پیسے نہیں دیتیں۔ کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

  • سائل: آصف اکرممقام: نامعلوم
  • تاریخ اشاعت: 11 جولائی 2017ء

زمرہ: مالیات

جواب:

میر سید شریف جرجانی فرماتے ہیں:

القمار: هو أن يأخذ من صاحبه شيئًا فشيئًا في اللعب.

ہر وہ کھیل جس میں یہ شرط ہو کہ ہارنے والے کی کوئی چیز جیتنے والے کو دی جائے گی، قمار (جوا) ہے۔

جرجانی، التعريفات، 1: 229، بيروت، دارالکتب العربی

عربی زبان کی ڈکشنری، المنجد فی اللغہ میں قمار کا معنیٰ یوں لکھا ہے کہ:

ہر وہ کھیل جس میں یہ شرط لگائی جائے کہ غالب (جیتنے والا) مغلوب (ہارنے والا) سے کوئی چیز لے گا‘ خواہ تاش کے ذریعے ہو یا کسی اور چیز کے ذریعے۔

لوئيس معلوف، المنجد، 653، بيروت

قرآنِ مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ.

اے ایمان والو! بیشک شراب اور جُوا اور (عبادت کے لئے) نصب کئے گئے بُت اور (قسمت معلوم کرنے کے لئے) فال کے تیر (سب) ناپاک شیطانی کام ہیں۔ سو تم ان سے (کلیتاً) پرہیز کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ۔

الْمَآئِدَة، 5: 90

درج بالا آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے شراب نوشی، جوئے، بت پرستی اور فال کے تیروں کا ناپاک اور شیطانی اعمال قرار دیا ہے۔ اس لیے جب کھیل یا دیگر کسی معاملے میں یہ شرط عائد کردی جائے کہ ہارنے والا‘ جیتنے والے کو کوئی چیز دے گا تو ایسی شرط جوئے کے زمرے میں آنے کی وجہ سے ممنوع ہے۔ اگر کوئی تیسرا فریق جیتنے والے کو انعام کے طور پر دے تو یہ جائز اور درست ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری