حج یا عمرہ میں حلق کروانے کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:3628

السلام علیکم! مفتی صاحب میرے درج ذیل سوالات کے بارے میں قرآن و احادیث کے کیا احکام ہیں:

(1) عمرہ ادا کرنے کے بعد بال منڈوانا فرض ہے یا واجب؟

(2) بال منڈوانے کی حکمت کیا ہے؟

(3) اگر کوئی بال نہیں‌ منڈواتا تو کیا اس سے عمرہ کی تکمیل متاثر ہوتی ہے؟

(4) اگر اس میں کوئی چھوٹ ہے تو اس کا متبادل کیا ہے؟

  • سائل: محمد فرحان صدیقیمقام: کراچی
  • تاریخ اشاعت: 22 جون 2015ء

زمرہ: حج  |  عمرہ کے احکام و مسائل  |  حلق اور قصر

جواب:

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ:

أَنَّ رَسُولَ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم قَالَ اللّٰهُمَّ ارْحَمِ الْمُحَلِّقِينَ قَالُوا وَالْمُقَصِّرِينَ يَا رَسُولَ اﷲِ قَالَ اللّٰهُمَّ ارْحَمِ الْمُحَلِّقِينَ قَالُوا وَالْمُقَصِّرِينَ يَا رَسُولَ اﷲِ قَالَ وَالْمُقَصِّرِينَ

’’حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! سر منڈوانے والوں پر رحم فرما۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم)! اور بال کٹوانے والوں پر؟ آپ (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: اے اللہ سر منڈوانے والوں پر رحم فرما! صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) نے عرض کیا: یا رسول اللہ (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم)! اور بال کٹوانے والوں پر؟ آپ نے فرمایا اور بال کٹوانے والوں پر‘‘۔

صحیح بخاری کی روایت میں یہ اضافہ ہے:

وَقَالَ اللَّيْثُ حَدَّثَنِي نَافِعٌ رَحِمَ اﷲُ الْمُحَلِّقِينَ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ قَالَ وَقَالَ عُبَيْدُ اﷲِ حَدَّثَنِي نَافِعٌ وَقَالَ فِي الرَّابِعَةِ وَالْمُقَصِّرِينَ

’’حضرت لیث نے نافع سے روایت کی ہے کہ آپ نے ایک یا دو مرتبہ ’رَحِمَ اﷲُ الْمُحَلِّقِيْنَ‘ کہا۔ عبیداﷲ نے نافع سے روایت کی کہ آپ نے چوتھی مرتبہ ’وَالْمُقْصِرِيْنَ‘ کہا‘‘۔

  1. بخاري، الصحیح، 2: 616، رقم: 1640، دار ابن کثير اليمامة بيروت
  2. مسلم، الصحيح، 2: 945، رقم: 1301، دار احياء التراث العربي بيروت
  3. احمد بن حنبل، المسند، 2: 79، رقم: 5507، موسسة قرطبة مصر
  4. ابي داود، السنن، 2: 202، رقم: 1979، دار الفکر
  5. ابن ماجة، السنن، 2: 1012، رقم: 3044، دار الفکر بيروت

ایک روایت میں ہے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم اللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُحَلِّقِينَ قَالُوا وَلِلْمُقَصِّرِينَ قَالَ اللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُحَلِّقِينَ قَالُوا وَلِلْمُقَصِّرِينَ قَالَهَا ثَلَاثًا قَالَ وَلِلْمُقَصِّرِينَ

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی: اے اللہ! سر منڈانے والوں کی مغفرت فرما۔ لوگ عرض گزار ہوئے: اور بال ترشوانے والوں کی۔ فرمایا: اے اللہ سر منڈانے والوں کی مغفرت فرما۔ لوگ عرض گزار ہوئے: اور بال ترشوانے والوں کی۔ یہ تین مرتبہ کہا اور پھر فرمایا: اور بال ترشوانے والوں کی بھی‘‘۔

  1. بخاري، الصحيح، 2: 617، رقم: 1641
  2. مسلم، الصحيح، 2: 946، رقم: 1302
  3. احمد بن حنبل، المسند، 2: 231، رقم: 7158
  4. ابن ماجه، السنن، 2: 1012، رقم: 3043

آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلق کروانے کے بارے میں مروی ہے:

عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اﷲِ بْنَ عُمَرَ رضی اﷲ عنهما قَالَ حَلَقَ النَّبِيُّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم وَطَائِفَةٌ مِنْ أَصْحَابِهِ وَقَصَّرَ بَعْضُهُمْ

’’حضرت نافع سے روایت ہے کہ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما نے فرمایا: نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر منڈایا اور آپ کے اصحاب میں سے ایک جماعت نے بھی جب کہ بعض نے ترشوائے‘‘۔

بخاري، الصحیح، 2: 617، رقم: 1642

مذکورہ بالا احادیث مبارکہ سے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خود حلق کروانا (سر کے بال منڈوانا) اور سر کے بال منڈوانے اور ترشوانے والوں کے لیے دعا کرنا ثابت ہے۔

حج و عمرہ کا ہر عمل اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کی اداؤں کی یاد ہے۔ شیطان کو کنکر مارنا، حجرِ اسود کو بوسہ دینا، کہیں اکڑ کے چلنا اور کہیں رک جانا، صفا و مروہ کے درمیان دوڑنا، کبھی کنگھی کرنے کی ممانعت اور کبھی بال منڈوانا، کہیں مکھی و مچھر مارنے کی بھی ممانعت اور کہیں جانوروں کی قربانی دینا یہ اعمال اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کی اداؤں کی یاد ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کو عبادت کا درجہ دے دیا ہے۔ اسی طرح حلق کروانا سنتِ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور عبادت کا درجہ رکھتا ہے۔

آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:

  1. حج یا عمرہ کا احرام کھولنے سے قبل حلق کروانا (سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا) سنت ہے۔
  2. اس کی ایک اہم حکمت صفائی و ستھرائی ہے۔
  3. اگر کوئی شخص بال کٹوا یا منڈوا نہیں سکا تو دم دینے سے عمرہ کی تکمیل ہوجائے گی۔
  4. اگر کوئی شرعی روکاوٹ، جیسے کوئی بیماری، ہو تو چھوٹ ہے، ورنہ نہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری