رضائے ربانی کا کیا مفہوم ہے؟


سوال نمبر:3348

اسلام علیکم! مفتیانِ کرام سے درج ذیل سوال پر رہنمائی چاہئے

  1. راضی(رَضِیَ ) کا معنی اورمفہوم اور رب کے راضی(رَضِیَ ) ہونے سے کیا مراد ہے؟
  2. اگر رب کسی سے راضی ہو جائے تو کیا وہ دوبارہ ایمان سےمحروم ہو سکتا ہے یا وہ گمراہ ہو سکتا ہے یا وہ پھر گناہوں کی طرف راغب ہو سکتا ہے؟

برائے مہربانی قرآن وحدیث سے حوالہ دیجئے۔ آپ کا انتہائی مشکور رہوں گا۔

  • سائل: فیصل ایوب قادریمقام: لاہور کینٹ
  • تاریخ اشاعت: 25 نومبر 2014ء

زمرہ: تصوف

جواب:

رَضِیَ کے معنیٰ ہیں: راضی ہونا اور خوش ہونا۔

رب کا اپنے بندے سے راضی ہونے سے مراد یہ ہے کہ: اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے راضی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے خوش ہے۔

اگر اللہ تعالیٰ کسی شخص پر راضی ہو جائے اور پھر وہ بندہ بھی اللہ تعالیٰ کی رضا پر قائم رہے تو ایمان سے محروم نہیں ہوگا۔ اگر بندہ اس رضا پر قائم نہ رہ سکے اور خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے متعین کردہ صراط حق سے ہٹ جائے تو وہ گمراہ ہو جائے گا۔ شیطان ہمہ وقت کوشاں ہے کہ انسان کو کامیابی کی اُس راہ سے بھٹکا دیا جائے جو اللہ تعالیٰ نے متعین کی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت فرماتا ہے:

قَالَ رَبِّ بِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاُزَیِّنَنَّ لَهمْ فِی الْاَرْضِ وَلَاُغْوِیَنَّهمْ اَجْمَعِیْنَ

’’ابلیس نے کہا: اے پروردگار! اس سبب سے جو تو نے مجھے گمراہ کیا میں (بھی) یقینا ان (تیرے بندوں) کے لیے زمین میں (گناہوں اور نافرمانیوں کو) خوب آراستہ و خوشنما بنا دوں گا اور ان سب کو ضرور گمراہ کر کے رہوں گا‘‘۔

اِلَّا عِبَادَکَ مِنْهمُ الْمُخْلَصِیْنَ

’’سوائے تیرے ان برگزیدہ بندوں کے جو (میرے اور نفس کے فریبوں سے) خلاصی پا چکے ہیں‘‘۔

قَالَ هذَا صِرَاطٌ عَلَیَّ مُسْتَقِیْمٌ

’’اللہ نے ارشاد فرمایا: یہ (اخلاص ہی) راستہ ہے جو سیدھا میرے در پر آتا ہے‘‘۔

اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْهمْ سُلْطٰنٌ اِلَّا مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْغٰـوِیْنَ

’’بے شک میرے (اخلاص یافتہ) بندوں پر تیرا کوئی زور نہیں چلے گا سوائے ان بھٹکے ہوؤں کے جنہوں نے تیری راہ اختیار کی‘‘۔

الحجر، 15: 39 تا 42

جو بھٹک جائیں گے ان کو شیطان گمراہ کرے گا۔ درج ذیل آیات میں اس بات کی وضاحت کی جا رہی ہے کہ کون لوگ ایمان سے محروم ہوسکتے ہیں:

کَیْفَ یَهدِی اﷲُ قَوْمًا کَفَرُوْا بَعْدَاِیْمَانِهمْ وَشَهدُٓوْا اَنَّ الرَّسُوْلَ حَقٌّ وَّجَآئَ همُ الْبَیِّنٰتُط وَاﷲُ لَایَهدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ

’’اﷲ ان لوگوں کو کیونکر ہدایت فرمائے جو ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے حالانکہ وہ اس امر کی گواہی دے چکے تھے کہ یہ رسول سچا ہے اور ان کے پاس واضح نشانیاں بھی آ چکی تھیں، اور اﷲ ظالم قوم کو ہدایت نہیں فرماتا‘‘۔

اُولٰٓئِکَ جَزَآؤُهمْ اَنَّ عَلَیْهمْ لَعْنَة اﷲِ وَالْمَلٰٓئِکَة وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ

’’ایسے لوگوں کی سزا یہ ہے کہ ان پر اﷲ کی اور فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت پڑتی رہے‘‘۔

خٰلِدِیْنَ فِیْهاج لَایُخَفَّفُ عَنْهمُ الْعَذَابُ وَلَهمْ یُنْظَرُوْنَ

’’وہ اس پھٹکار میں ہمیشہ (گرفتار) رہیں گے اور ان سے اس عذاب میں کمی نہیں کی جائے گی اور نہ انہیں مہلت دی جائے گی‘‘۔

اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ م بَعْدِ ذٰلِکَ وَاَصْلَحُوْاقف فَاِنَّ اﷲَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ

’’سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے اس کے بعد توبہ کر لی اور (اپنی) اصلاح کر لی، تو بے شک اﷲ بڑا بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔

اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِهمْ ثُمَّ ازْدَادُوْا کُفْرًا لَّنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُهمْ ج وَاُولٰٓئِکَ همُ الضَّآلُّوْنَ

’’بے شک جن لوگوں نے اپنے ایمان کے بعد کفر کیا پھر وہ کفر میں بڑھتے گئے ان کی توبہ ہرگز قبول نہیں کی جائے گی، اور وہی لوگ گمراہ ہیں‘‘۔

یٰٓـاَیُّها الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تُطِیْعُوْا فَرِیْقًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ یَرُدُّوْکُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ کٰفِرِیْنَ

’’اے ایمان والو! اگر تم اہلِ کتاب میں سے کسی گروہ کا بھی کہنا مانو گے تو وہ تمہارے ایمان (لانے) کے بعد پھر تمہیں کفر کی طرف لوٹا دیں گے‘‘۔

ال عمران، 3: 86۔ 90، 100

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا ثُمَّ اٰمَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا ثُمَّ ازْدَادُوْا کُفْرًا لَّمْ یَکُنِ اﷲُ لِیَغْفِرَلَهمْ وَلَا لِیَهدِیَهمْ سَبِیْلًا

’’بے شک جو لوگ ایمان لائے پھر کافر ہوگئے، پھر ایمان لائے پھر کافر ہوگئے، پھر کفر میں اور بڑھ گئے تو اللہ ہر گز (یہ ارادہ فرمانے والا) نہیں کہ انہیں بخش دے اور نہ (یہ کہ) انہیں سیدھا راستہ دکھائے‘‘۔

النساء، 4: 137

یٰٓاَیُّها الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اﷲُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّهمْ وَیُحِبُّوْنَهٗٓلا اَذِلَّة عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّة عَلَی الْکٰفِرِیْنَز یُجَهدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ وَلَا یَخَافُوْنَ لَوْمَة لَآئِمٍط ذٰلِکَ فَضْلُ اﷲِ یُؤْتِیْه مَنْ یَّشَآئُط وَاﷲُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ

’’اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے گا تو عنقریب اﷲ (ان کی جگہ) ایسی قوم کو لائے گا جن سے وہ (خود) محبت فرماتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے وہ مومنوں پر نرم (اور) کافروں پر سخت ہوں گے اﷲ کی راہ میں (خوب) جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوفزدہ نہیں ہوں گے۔ یہ (تعمیری کردار) اللہ کافضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اﷲ وسعت والا (ہے) خوب جاننے والا ہے‘‘۔

المائدة، 5: 54

مَنْ کَفَرَ بِاﷲِ مِنْم بَعْدِ اِیْمَانِهٖٓ اِلَّا مَنْ اُکْرِه وَقَلْبُهٗ مُطْمَئِنٌّم بِالْاِیْمَانِ وَلٰـکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْهمْ غَضَبٌ مِّنَ اﷲِج وَلَهمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ

’’جو شخص اپنے ایمان لانے کے بعد کفر کرے، سوائے اس کے جسے انتہائی مجبور کر دیا گیا مگر اس کا دل (بدستور) ایمان سے مطمئن ہے، لیکن (ہاں) وہ شخص جس نے (دوبارہ) شرحِ صدر کے ساتھ کفر (اختیار) کیا سو ان پر اللہ کی طرف سے غضب ہے اور ان کے لیے زبردست عذاب ہے‘‘۔

ذٰلِکَ بِاَنَّهمُ اسْتَحَبُّوا الْحَیٰـوة الدُّنْیَا عَلَی الْاٰخِرَة وَاَنَّ اﷲَ لَا یَهدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ

’’یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے دنیوی زندگی کو آخرت پر عزیز رکھا اور اس لیے کہ اللہ کافروں کی قوم کو ہدایت نہیں فرماتا‘‘۔

اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ طَبَعَ اﷲُ عَلٰی قُلُوْبِهمْ وَسَمْعِهمْ وَاَبْصَارِهمْج وَاُولٰٓئِکَ همُ الْغٰفِلُوْنَ

’’یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر اور ان کی آنکھوں پر مُہر لگا دی ہے اور یہی لوگ ہی (آخرت کے انجام سے) غافل ہیں‘‘۔

لَا جَرَمَ اَنَّهمْ فِی الْاٰخِرَة همُ الْخٰسِرُوْنَ

’’یہ حقیقت ہے کہ بے شک یہی لوگ آخرت میں خسارہ اٹھانے والے ہیں‘‘۔

ثُمَّ اِنَّ رَبَّکَ لِلَّذِیْنَ هاجَرُوْا مِنْم بَعْدِ مَا فُتِنُوْا ثُمَّ جٰهدُوْا وَصَبَرُوْٓا اِنَّ رَبَّکَ مِنْم بَعْدِها لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ

’’پھر آپ کا رب ان لوگوں کے لیے جنہوں نے (ظلم و جبر کرنے والے کافروں کے ہاتھوں) آزمائشوں (اور تکلیفوں) میں مبتلا کیے جانے کے بعد ہجرت کی (یعنی اللہ کے لیے اپنے وطن چھوڑ دیے) پھر (دفاعی) جنگیں کیں اور (جنگ و جدال، فتنہ و فساد اور ظلم و جبر کے خلاف) سینہ سپر رہے تو (اے حبیبِ مکرّم!) آپ کا رب اس کے بعد بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے‘‘۔

النحل، 16: 106۔ تا 110

وَلَا یَزَالُوْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ حَتّٰی یَرُدُّوْکُمْ عَنْ دِیْنِکُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْاط وَمَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَیَمُتْ وَهوَ کَافِرٌ فَاُولٰٓئِکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهمْ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةج وَاُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِج همْ فِیْها خٰلِدُوْنَ

’’اور (یہ کافر) تم سے ہمیشہ جنگ جاری رکھیں گے یہاں تک کہ تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں اگر (وہ اتنی) طاقت پاسکیں اور تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے اور پھر وہ کافر ہی مرے تو ایسے لوگوں کے دنیا و آخرت میں (سب) اعمال برباد ہو جائیں گے، اور یہی لوگ جہنمی ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے‘‘۔

البقرة، 2: 217

معلوم ہوا کہ رب کی رضا پانے کے لیے دائمی استقامت ضروری ہے ورنہ ایمان لانے کے بعد بھی شیطان گمراہ کر سکتا ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری