کیا مقروض‌ پر زکوٰۃ‌ ہے؟


سوال نمبر:3338
کیا مقروض‌ پر زکوٰۃ‌ ہے؟

  • سائل: امان اللہ قادریمقام: شکاگو، یونائٹڈ سٹیٹس
  • تاریخ اشاعت: 31 اگست 2016ء

زمرہ: زکوۃ

جواب:

اگر مقروض کے پاس اس قدر مال ہے کہ قرض کی رقم کو منہا (Deduct) کرنے کے بعد اُس کے پاس بقدر نصابِ شرعی یا اس سے زائد بچ جاتا ہے تو اس پر زکوٰۃ واجب ہے۔ اگر قرض کی رقم کو منہا کرنے کے بعد بقیہ مال نصابِ شرعی کو نہیں پہنچتا تو اس پر زکوٰۃ نہیں ہوگی۔ امام علاؤالدین الکاسانی فرماتے ہیں:

إذَا كَانَ عَلَى الرَّجُلِ دَيْنٌ وَلَهُ مَالُ الزَّكَاةِ وَغَيْرُهُ مِنْ عَبِيدِ الْخِدْمَةِ، وَثِيَابِ الْبِذْلَةِ، وَدُورِ السُّكْنَى، فَإِنَّ الدَّيْنَ يُصْرَفُ إلَى مَالِ الزَّكَاةِ عِنْدَنَا سَوَاءٌ كَانَ مِنْ جِنْسِ الدَّيْنِ أَوْ لَا وَلَا يُصْرَفُ إلَى غَيْرِ مَالِ الزَّكَاةِ، وَإِنْ كَانَ مِنْ جِنْسِ الدَّيْنِ.

جب کسی شخص پر قرض ہو اور اس کے پاس مال زکوٰۃ اور اس کے علاوہ خدمت کے نوکر، استعمال کے کپڑے، رہائشی مکانات وغیرہ بھی ہوں تو ہمارے نزدیک قرض مال زکوٰۃ میں سے ادا کیا جائے گا، خواہ وہ مال جنس قرض سے ہو یا نہ ہو۔ اور اس کے علاوہ دوسری اشیاء سے ادا نہیں کیا جائے گا ، خواہ وہ جنس قرض سے ہوں۔

علاء الدين الكاسانى، بدائع الصنائع، 2: 8، بيروت، لبنان: دار الكتاب العربى

اس لیے کل مال میں سے قرض کے برابر رقم نکال کر باقی کو دکھا جائے گا، اگر وہ نصابِ شرعی کے برابر ہو تو اس پر زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری