شبِ برات کی حقیقت کیا ہے؟


سوال نمبر:3304
السلام علیکم! شبِ برات کی حقیقت کیا ہے؟

  • سائل: ظفر اقبالمقام: پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 17 مارچ 2015ء

زمرہ: عبادات

جواب:

اللہ تعالیٰ کا انسان کو مبعوث کرنے کا مقصود بندگی ہے مگر ہم اپنے مقصدِ تخلیق کو دنیاوی مصروفیات اور مادی محبت کی وجہ سے فراموش کرچکے ہیں۔ اسلام کی بنیادی تعلیمات کی طرف عدمِ توجہ، عبادات، اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت بھی ہمارے سینوں سے نکلتی جارہی ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اپنی اصل کھودینے اور اپنے مقصد کو بھول جانے کا احساس بھی ہمارے اندر موجود نہیں۔ احساس کا خاتمہ اور قدرو قیمت سے لاعلمی آہستہ آہستہ انسان کو گمراہی کی طرف مائل کرتی چلی جاتی ہے۔ اس صورت حال میں خاص ایام کا انعقاد احساس کو زندہ کرنے کا باعث بنتا ہے تاکہ احکامات الہٰیہ کو بجا لایا جائے۔ ہم اگر آج دنیاوی معاملات میں کچھ مخصوص دنوں کو دوسرے دنوں پر زیادہ فوقیت دیتے ہیں، ان دنوں کو تزک و احتشام اور دھوم دھام سے مناتے ہیں۔ اس کے پس پردہ بھی یہی مقاصد کار فرما ہوتے ہیں۔

اگر ہم یومِ مزدور، یومِ تکبیر اور یومِ پاکستان مناتے ہیں تو محض ان کو Celebrate کرنا ہی مقصد نہیں ہوتا بلکہ وہ ایام ہمیں قربانیوں کی یاد دلاتے ہیں، اپنے مقاصد کو ہمیشہ ذہن میں زندہ رکھنے کے لئے مہمیز کا کردار ادا کرتے ہیں۔ بقاء اور ترقی کے لئے اپنے کردار کو مزید نکھارنے کو دعوت دیتے ہیں۔ اسی طرح اسلامی دنوں میں سے چند دنوں اور راتوں کو بھی اس لئے فضیلت دی ہے کہ یہ دن اور راتیں دوسرے دن اور راتوں سے منفرد مقام رکھتے ہیں۔ یہ دن اور رات ہمیں جھنجھوڑتے ہیں اور ہمیں اللہ تعالیٰ کے خلیفہ اور نائب ہونے کا احساس دلاتے ہوئے اس منصب کے مطابق کردار ادا کرنے کی طرف راغب کرتے ہیں۔

شب برات بھی ان خاص ایام کے قبیل سے تعلق رکھنے والی ایک اہم رات ہے، جس میں احساسِ زیاں کو اجاگر کرنا مقصود ہے اس لئے کہ قرآن کریم کا الوہی پیغام ’لعلکم یتذکرون، لعلکم یتفکرون‘ کی صورت میں ہر وقت بلند ہورہا ہے۔ براۃ کے معنیٰ ہیں نجات، اور شبِ برات کا معنیٰ ہے گناہوں سے نجات کی رات۔ گناہوں سے نجات توبہ سے ہوتی ہے۔ یہ رات مسلمانوں کے لئے آہ و گریہ و زاری کی رات ہے، رب کریم سے تجدید عہد کی رات ہے، شیطانی خواہشات اور نفس کے خلاف جہاد کی رات ہے، یہ رات اللہ کے حضور اپنے گناہوں سے زیادہ سے زیادہ استغفار اور توبہ کی رات ہے۔ اسی رات نیک اعمال کرنے کا عہد اور برائیوں سے دور رہنے کا عہد دل پر موجود گناہوں سے زنگ کو ختم کرنے کاموجب بن سکتا ہے۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

حٰم وَالْکِتٰبِ الْمُبِيْنِ اِنَّـآ اَنْزَلْنٰـهُ فِیْ لَيْلَةٍ مُّبٰـرَکَةٍ اِنَّا کُنَّا مُنْذِرِيْنَ فِيْهَا يُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِيْمٍ

حا میم (حقیقی معنی اللہ اور رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں) اس روشن کتاب کی قسم بے شک ہم نے اسے ایک بابرکت رات میں اتارا ہے۔ بے شک ہم ڈر سنانے والے ہیں اس (رات) میں ہر حکمت والے کام کا (جدا جدا) فیصلہ کردیا جاتاہے۔

الدخان، 44: 1تا4

جاراللہ ابو قاسم زمخشری رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:

    نصف شعبان کی رات کے چار نام ہیں:
  1. لیلۃ المبارکہ
  2. لیلۃ البراۃ
  3. لیلۃ الصک
  4. لیلۃ الرحمۃ

اور کہا گیا ہے کہ اس کو شب برات اور شب صک اس لئے کہتے ہیں کہ بُندار یعنی وہ شخص کہ جس کے ہاتھ میں وہ پیمانہ ہوکہ جس سے ذمیوں سے پورا خراج لے کر ان کے لئے برات لکھ دیتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اس رات کو اپنے بندوں کے لئے بخشش کا پروانہ لکھ دیتا ہے۔ اس کے اور لیلۃ القدر کے درمیان چالیس راتوں کا فاصلہ ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک قول ہے کہ یہ رات پانچ خصوصیتوں کی حامل ہوتی ہے۔

  1. اس میں ہر کام کا فیصلہ ہوتا ہے۔
  2. اس میں عبادت کرنے کی فضیلت ہے۔
  3. اس میں رحمت کانزول ہوتا ہے۔
  4. اس میں شفاعت کا اتمام ہوتا ہے۔
  5. اور پانچویں خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس رات میں یہ عادت کریمہ ہے کہ اس میں آب زمزم میں ظاہراً زیادتی فرماتا ہے۔

نبی اکرم (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تیرہ شعبان کی رات کو اپنی امت کی بخشش کے بارے میں سوال کیا تو آپ کو تیسرا حصہ عطا فرمایا گیا۔ پھر چودھویں رات کو دعا مانگی تو آپ کو دو تہائی امت عطا فرمائی گئی۔ پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پندرھویں شعبان کی رات کو دعا مانگی تو آپ کی تمام امت سوائے چند نافرمان اشخاص کے آپ کے سپرد کردی گئی۔

تفسیر الکشاف 4: 269، تفسیر سورة الدخان

امام بغوی نے نبی اکرم (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مرفوع روایت نقل کی ہے کہ آپ (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا:

شعبان سے شعبان تک اموات لکھی جاتی ہیں یہاں تک کہ آدمی نکاح کرتا ہے اور اس کے گھر اولاد پیدا ہوتی ہے حالانکہ اس کا نام مُردوں میں لکھا جاچکا ہوتا ہے۔

تفسير ابن ابی حاتم، 10: 3287، رقم: 18531

امام ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عمر (رضی اللہ عنہما) سے اللہ تعالیٰ کے اس قول مبارکہ ’فِیْہَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْم‘ کے تحت روایت کی ہے۔ آپ نے فرمایا:

ایک سال سے دوسرے سال تک کے امور (شقاوت و سعادت) یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے پاس کتاب میں تحریر ہے اس میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہوتا

تفسير ابن ابی حاتم، 10: 3287، رقم: 18531

امام جلال الدین سیوطی ’’تفسیر در منثور‘‘ میں لکھتے ہیں کہ خطیب بغدادی اور ابن نجار نے حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے روایت کی ہے کہ:

رسول اللہ (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام شعبان کے روزے رکھ کر اس کو رمضان کے ساتھ ملادیتے تھے اور آپ کسی بھی ماہ کے تمام دنوں کے روزے نہ رکھتے تھے سوائے شعبان کے۔ میں نے عرض کی: یارسول اللہ (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) شعبان کا مہینہ آپ کو بڑا پسند ہے کہ آپ اس کے روزے رکھتے ہیں؟ آپ (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: ہاں۔ اے عائشہ (رضی اللہ عنہا): کوئی نفس بھی پورے سال میں فوت نہیں ہوتا مگر اس کی اجل شعبان میں لکھ دی جاتی ہے۔ تو میں پسند کرتا ہوں کہ جب میری اجل لکھی جائے تو میں اللہ کی عبادت اور عمل صالح میں مصروف ہوں۔

تفسير درالمنثور، 6: 26)

امام ابن ماجہ اور امام بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت علی (رضی اللہ عنہ) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

جب نصف شعبان کی رات آئے تو رات کو قیام کرو اور اس کی صبح کا روزہ رکھو کیونکہ اس رات کو اللہ تعالیٰ کی رحمت غروب آفتاب سے لے کر آسمان دنیا پر آکر پکارتی ہے: ہے کوئی بخشش مانگنے والا میں اس کو بخش دوں، ہے کوئی رزق کا طالب میں اس کو رزق دوں، ہے کوئی بیمار جو شفا طلب کرے، میں اس کو شفا دوں، یہاں تک کہ فجر طلوع ہوجاتی ہے۔

سنن ابن ماجه، کتاب ماجآء فی شهر رمضان، باب ماجآء فی لیلة النصف من شعبان

ابن ابی شیبہ ترمذی، ابن ماجہ اور بیہقی نے حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے روایت کی آپ فرماتی ہیں کہ:

میں نے نبی اکرم (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک رات بستر استراحت پر نہ پایا تو میں آپ کی جستجو میں نکلی آپ کو بقیع میں اس طرح پایا کہ آپ کا سر مبارک آسمان کی طرف اٹھا ہوا ہے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ کیا تمہیں اس کا خوف ہوا کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر ظلم کرے گا۔ عرض کیا: مجھے یہ خوف نہیں ہے مگر میں نے یہ گمان کیا کہ شاید آپ کسی اور زوجہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں۔ تب آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ (عزوجل) آسمان دنیا کی طرف پندرھویں شعبان کی شب کو (اپنی شان کے مطابق) نزول فرماتا ہے۔ پس قبیلہ ’’بنی کلب‘‘ کی بکریوں کے بالوں کی گنتی سے زیادہ اللہ تعالیٰ مخلوق کو بخش دیتا ہے۔

جامع ترمذی، کتاب الصوم، باب ماجآء فی ليلة النصف من شعبان

حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا:

نصف شعبان کی رات رحمتِ خداوندی آسمان دنیا پر نازل ہوتی ہے۔ پس ہر شخص کو بخش دیا جاتا ہے سوائے مشرک شخص کے یا جس کے دل میں کینہ ہو۔

شعب الایمان، رقم: 26/3827

امام بیہقی نے حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے روایت کی ہے کہ:

رسول اللہ (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رات کو اٹھ کر نماز پڑھی اور بہت طویل سجدہ کیا، حتی کہ مجھے گمان ہوا کہ آپ کا انتقال ہوگیا ہے۔ میں اٹھی اور آپ کے پائے اقدس کا انگوٹھا ہلایا وہ ہلا تو پھر میں لوٹ آئی۔ جب آپ نے سجدہ سے سر اٹھایا اور نماز تمام کی۔ تو فرمایا: اے عائشہ اے حمیرا: کیا تم کو یہ گمان ہوگیا تھا کہ نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تم سے زیادتی کی ہے؟ عرض کیا: نہیں خدا کی قسم! یارسول اللہ (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) لیکن آپ کے طویل سجدہ نے مجھے وفات کے خوف میں مبتلا کردیا تھا۔ فرمایا: کیا تم جانتی ہو کہ یہ کونسی رات ہے؟۔ عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتا ہے۔ فرمایا: پندرھویں شعبان کی رات ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ اس رات میں اپنے بندوں پر ظہور فرماتا ہے تو توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور رحم چاہنے والوں پر رحم فرماتا ہے اور کینہ پروروں کو جیسے وہ تھے۔ اسی پر رکھتا ہے۔

شعب الایمان، رقم :3835

درج بالا تمام اقتباسات اور احادیث مبارکہ سے عیاں ہوتا ہے کہ شب برات بھٹکے ہوئے اور سرکش لوگوں کے لئے ایک دستک ہے جو آخرت کی زندگی کو بھول کر دنیاوی زندگی کے گورکھ دھندوں میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔ یہ رات ان کے لئے اپنے رب کی طرف بلاوہ، اور اسے منانے کی رات ہے۔ جب کوئی شخص کماحقہ اس رات کو اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد میں بسر کرتا ہے، تسبیح و تہلیل کرتا ہے، درود و سلام کے گجرے پیش کرتا ہے، گناہوں سے معمور دامن ذکر الہٰی سے صاف کرتا ہے تو یہ رات اسکے لئے بہت سے انعام و اکرام لاتی ہے۔ تقدیریں بدل جاتی ہیں، زندگی کے حالات بدل جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس ایک عظیم رات کو اس میں کار فرما روح کے مطابق گزارنے کے ہی بدولت ممکن ہے۔ قرآن پاک میں ہے۔

یَمْحُوا اﷲُ مَا یَشَآئُ وَ یُثْبِتُج وَ عِنْدَه اُمُّ الْکِتٰبِ

اﷲ جس (لکھے ہوئے) کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جسے چاہتا ہے) ثبت فرما دیتا ہے، اور اسی کے پاس اصل کتاب (لوحِ محفوظ) ہے۔

الرعد، 13: 39

شب برات ہمارے احوال کو بدل دیتی ہے۔ اگر انسان احسن طور پر اس کے لوازمات پورے کرے تو یہ رات گناہوں کے ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اگر اس رات اپنے رب کے حضور ندامت اشک کے آنسو بہائے اور نالہ و فریاد کرے، اپنے صغائر و کبائر گناہوں کے لئے معافی کا خواست گار بنے تو اس وقت بدحالی، خوشحالی اور تنگی، آسانی میں بدل جاتی ہے۔ بنی اسرائیل کے ایک بے حد گناہگار شخص نے صرف توبہ کا ارادہ کیا، ابھی مکمل طور پر توبہ نہ کی، مگر نیت و ارادہ کے سبب تقدیر بدل دی گئی اور جنت میں پہنچایا گیا۔ اگر آج حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی افضل امت کا ایک گناہگار اور سرکش شخص توبہ کرے تو کیا اس کی تقدیر نہیں بدل سکتی؟ بالخصوص شب برات کا تو اور افضل مقام ہے جہاں حضورصلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد گرامی کی رو سے اپنے رب سے گناہوں کی معافی مانگنا اور آہ و زاری کرکے اپنے رب سے آئندہ گناہوں سے سچی توبہ کرنا ہے۔ شب برات ہمیں اس عمل کی طرف دعوت دے رہی ہے کہ اس رات محاسبہ نفس، توبہ، تجدید عہد کے ذریعے دنیاوی و اخروی فلاح کا ساماں تیارکریں۔

شب برات کا دوسرے دنوں اور راتوں سے موازنہ کیا جائے تو شب برات دوسرے شب و روز سے بالکل مختلف ہے۔ عیدالفطر اور عیدالاضحٰی اللہ تعالیٰ کی طرف سے احکامات کی بجاآوری کا صلہ ہیں۔ اس میں انسان کو رمضان المبارک کے روزوں کی ادائیگی کے عوض عیدالفطر کی خوشی عطا ہوتی ہے۔ عیدین کا تعلق ہمارے باہمی معاملات سے ہے۔ احکامات کی بجا آوری کا صلہ اور انعام ہے۔

اگر ہماری روزمرہ زندگی کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں یہ احساس پیدا ہونا چاہئے اور عبرت حاصل کرنی چاہئے کہ ہم آئے روز اپنے بہت سے اعزاء و اقارب اور دوست احباب کو کل نفس ذائقۃ الموت کے ارشاد کے مطابق اپنے سے رخصت کرتے ہیں۔ اُن کا رخصت ہونا اصل میں ہمارے لئے دعوتِ فکر ہے کہ ہم نے اپنے لئے کیا ساماں تیار کررکھا ہے؟

شب برات دنیا و آخرت کے سنوارنے کے لئے ایک فکر کا نام ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دوری کو ختم کرکے قربت کی طرف ایک الارم ہے۔ حب الہٰی اور محبت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ایک دعوت ہے۔ جس پر عمل پیرا ہوکر انسان دنیا اور آخرت سنوار سکتا ہے۔ شب برات ہمارے لئے ایک الٹی میٹم ہے کہ اس رات اللہ کی یاد میں اشکبار ہوں۔ یہ رات اللہ کے فیوضات کا بحرِ بیکراں ہے جس میں غوطہ زن ہوکر اپنے من کو سیراب کیا جاسکے۔ لیکن آج کے دور میں ہم اس کے برعکس اس رات کو پٹاخوں اور آتش بازی جیسے کاموں کی نذر کردیتے ہیں۔

شب برات اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اسلام کے اصولوں سے عاری لوگوں کے خلاف ایک نقارہ ہے جس میں باور کروایا جارہا ہے کہ یہ یاس اور قنوطیت تمہارے کئے ہوئے اعمال کی بناء پر ہے۔ اس رات اپنے اعمال کی اصلاح کی طرف ترغیب دی جارہی ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔