کیا رزق، عمر، نیک بختی یا بدبختی ماں کے پیٹ میں‌ لکھ دی جاتی ہے؟


سوال نمبر:3118

’’تم میں سے ہر ایک اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن گزارتا ہے (نطفہ) پھر اسی قدر علقہ پھر اسی قدر مضغہ پھر اللہ فرشتہ بھیجتا ہے اور چار چیزوں کا حکم ہوتا ہے۔ رزق، عمر، نیک بخت یا بدبخت‘‘۔

حدیثِ مبارکہ میں‌ بتایا گیا ہے کہ جب اپنی ماں کے پیٹ میں‌ ہوتا ہے تو سب کچھ (موت تک کا) لکھ دیا جاتا ہے ۔

میرا سوال یہ ہے کہ جب انسان کی قسمت کا فیصلہ ہو چکا ہےتو پھر خود کشی حرام کیوں ہے؟

  • سائل: محمد وحید فاروقیمقام: صوابی، پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 16 جولائی 2014ء

زمرہ: ایمانیات  |  عقائد

جواب:

جو کچھ بھی انسان کے بارے میں لکھا جاتا ہے وہ علم الہی ہے۔ اس کی وضاحت درج ذیل ہے:

تقدیر کیا ہے؟

قدیم زمانے سے گمراہ انسانوں کا وطیرہ رہا ہے کہ وہ اپنے جرائم اور گناہوں کو تقدیر کا نام دے کر مطمئن ہوجاتے ہیں اور مظلوم طبقہ بھی خدا کی رضا سمجھ کر چپ ہوجاتا ہے یہ امر ذہن نشین رہے کہ تقدیر علم الٰہی کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علم میں کیا ہے؟ اسے وہی بہتر جانتا ہے ہمیں اس پر اتنا ایمان رکھنا چاہیے کہ جو کچھ ہوتا ہے، اللہ کے علم کے مطابق ہوتا ہے۔اس کے ٹائم ٹیبل کے مطابق ہوتا ہے۔اس کے لیے کوئی حادثہ اچانک نہیں ہوتا کیونکہ وہ سب کچھ پہلے سے جانتا ہے۔

یاد رکھیں کہ ہم تقدیر کے مکلف نہیں بلکہ احکام شرع کے پابند ہیں کوئی شخص جرم کا ارتکاب اور نیکی کا انکار اس دلیل سے نہیں کر سکتا کہ میری تقدیر میں یہی تھا اس لیے کہ آپ کو شریعت نے نیکی کرنے اور بدی سے بچنے کا واضح حکم دیا ہے آپ اس شرعی حکم کو بخوبی جانتے ہیں۔ تقدیر کا تعلق علم غیب سے ہے جو آپ کے بس میں نہیں پھر جو چیز آپ جانتے ہیں اور جس کا حکم بھی آپ کو دیا گیا ہے اور جس کی تعمیل یا انکار کا نتیجہ بھی آپ کے سامنے رکھ دیا گیا ہے اگر آپ اس کی تعمیل نہیں کرتے اور اس علم الٰہی کا جسے آپ جانتے ہی نہیں، بہانہ بنا کر آپ غلط راہ اختیار کر رہے ہیں کہ جی قسمت میں یہی لکھا تھا آپ کو کیسے پتہ چل گیا کہ آپ کی قسمت میں یہی لکھا تھا۔ کیا آپ نے لوح محفوظ پر لکھا دیکھ لیا تھا؟ پس جس کا پتہ ہے اختیار ہے، کرنے کی قدرت ہے، جس کے انجام سے باخبر ہیں اس پر عمل نہ کرنا اور جسے جانتے ہی نہیں اس کا بہانہ بنا کر فرائض سے فرار اور جرائم کا ارتکاب کرنا، بیمار اور مجرمانہ ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ بقول علامہ اقبال رحمہ اﷲ۔

تقدیر کے پابند ہیں جمادات و نباتات
مومن فقط احکام الٰہی کا ہے پابند

اس غلط سوچ نے ہمارے معاشرے کو جہنم زار بنا دیا ہے۔

عمل سے فارغ ہوا مسلمان بنا کے بہانہ تقدیر کا

غربت، پسماندگی، جہالت، بیروزگاری، ظلم، ڈاکے، قتل، اغوا، آبرو ریزیاں، تخریب کاریاں، رشوت اور لوٹ کھسوٹ کرنے والے تمام شیطان تقدیر کا غلط مفہوم نکال کر ہی اپنی کرتوتوں کا جواز نکالتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کہیں بھی کسی کو ظلم کرنے کا حکم نہیں دیا نہ مظلوم کو دب دبا کر ظلم کے آگے گھٹنے ٹیکنے کا کہیں حکم دیا بلکہ مظلوموں کو ظالموں سے قتال کرنے کا حکم دیا ہے۔ قرآن کریم میں فرمایا :

أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌo

’’ان لوگوں کو (فتنہ و فساد اور اِستحصال کے خلاف دفاعی جنگ کی) اجازت دے دی گئی ہے جن سے (ناحق) جنگ کی جا رہی ہے اس وجہ سے کہ ان پر ظلم کیا گیا، اور بے شک اﷲ ان (مظلوموں) کی مدد پر بڑا قادر ہے‘‘۔

الحج ، 22: 39

مسئلہ جبرو قدر:

بعض لوگ اپنی برائیوں سے بھری زندگی کو دیکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ انسان اپنے خصائل کی تشکیل کے حوالے سے بھی بے بس ہے لہٰذا ایسے انسان کو گناہ و ثواب اور خیروشر کی کڑی آزمائش میں ڈالنا ظلم ہے۔ ان احباب کی خدمت میں عرض ہے کہ ہمیں عقل، فہم، دانش، شعور، حواس اور وحی کے ذریعے اچھے برے کا تمام علم دے دیا گیا۔ سیدھے راستہ کی نشاندہی بھی فرما دی اور اس پر چلنے کا انجام بھی، برا راستہ بھی بتا دیا اور اس کو اپنانے کا خطرناک نتیجہ بھی۔ ہمیں علم، شعور اور ارادہ واختیار دے دیا کہ سمجھو اور جس راستے کو چاہو اختیار کر لو۔ یہ اختیار فرشتوں کو نہیں ملا، انسانوں کو ملا ہے اس میں انسانوں کی عزت و عظمت ہے کہ وہ بے اختیار پتھر یا کسی مشین کا کل پرزہ نہیں۔ بااختیار، باشعور، مقتدر ہستی ہے لیکن اکثر انسانوں نے اللہ کی ان عطا شدہ نعمتوں کی ناقدری کی اور ان کا غلط استعمال کیا اور بجائے فائدے کے اپنی ہلاکت کا سامان کر لیا جیسے لوہے سے آپ نے ایک نہایت ضروری اور کار آمد مفید آلہ چھری بنائی اب اس کا استعمال آپ کے اختیار میں ہے چاہیں تو گوشت، سبزیاں وغیرہ کاٹ کر زندگی کو سہولتوں سے متمتع کریں اور چاہیں تو اپنے یا کسی اور بے گناہ کے پیٹ میں گھونپ کر چراغ زندگی گل کر دیں۔ قصور نہ لوہا بنانے والے خدا کا ہے نہ چھری بنانے والے کا، قصور اس احمق کا ہے جس نے خالق کی نافرمانی کی دوسرے انسانوں سے بہتر استعمال کا سبق نہ لیا اور کسی خیر خواہ کے مشورے پر بھی توجہ نہ دی عقل و فہم اور شعور کا بھی خون کیا اور پند ناصح کو بھی درخور اعتنا نہ جانا۔ انسان اپنی ابتدائے آفرینش سے فریب نفس کا شکار ہے۔ جان بوجھ کر غلط کاریاں کرتا ہے اور اپنے نفس کو دھوکہ دینے اور طفل تسلیوں کے طور پر اس قسم کی منفی سوچوں میں مگن رہتا ہے۔

پرتجسس ذہن وہ نہیں جو منفی سوچ سوچے، تجسس صحیح وہی ہے جو مثبت ہو۔ صبح سویرے اٹھتا، قضائے حاجت سے فارغ ہوتا، ناشتہ کرتا اور دفتر، دکان، کارخانے، سکول، کالج، کھیت، زمین، باغ، منڈی کی طرف وقت مقررہ پر روزی کمانے اور مستقبل سنوارنے کے لیے ہمت کر کے چل پڑتا ہے۔ اس وقت ایسی منفی سوچ نہیں سوچتا، کام سے فارغ ہو کر، گھر پہنچتا، کھانا کھاتا اور وقت پر سوتا ہے۔ کبھی ان مصروفیات پر منفی سوچ کی گرد پڑنے نہیں دیتا ہر کام وقت پر کرتا ہے لیکن جونہی دینی فرائض انجام دینے کی باری آئی، نفس ہزاروں وسوسے پیدا کرتا ہے اور انسان کو احساس ذمہ داری سے عاری کرتا ہے کبھی اپنی کوتاہیوں کو تقدیر کے پلڑے میں ڈالتا ہے کبھی ماحول کی آلودگی کے ذمے لگاتا ہے۔

یہ سب بہانے اور نفس کی خود فریبیاں ہیں۔ وسوسوں سے دامن بچائیے۔

ہدایات نبوت پر یقین کے ساتھ کار بند ہونا سیکھیے اور سکون سے زندہ رہیے۔ نیک عمل کیجیے اور گناہوں کے خلاف سینہ سپر ہوجائیے ان وساوس سے بچنے کا ایک بہترین ذریعہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی صحبت بھی ہے۔ کسی بزرگ کی صحبت اختیار کریں۔ اپنی زندگی سنوارئیے اور دوسروں کا بھلا کیجیے۔

ہم حکم خداوندی کے پابند ہیں علم خداوندی کے نہیں :

تقدیر کے حوالے سے یہ سوال بھی اکثر ہمارے ایمان کو متزلزل کرتا رہتا ہے کہ رزق کمانے کے لیے حلال و حرام ذرائع اختیار کرنا انسان کے اپنے اختیار میں ہے مگر مقدار میں اضافہ یا کمی انسان کے اختیار میں نہیں اس امر کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ تقدیر کا لغوی معنی کیا ہے؟ اس کا معنی ’’اندازہ لگانا، مقرر کرنا‘‘ اس کا تعلق محض اللہ کے علم سے ہے عام انسانوں کو اس کا کچھ پتہ نہیں کہ اللہ کے علم میں کیا مقرر ہے۔ دوسری چیز ہے اللہ کا حکم جس کا بندوں کو علم ہے وحی کے ذریعے آثار کائنات کے ذریعے، ہم حکم خدواندی کے پابند ہیں علم خداوندی کے نہیں۔ حکم ہے نماز پڑھو ہم پر نماز پڑھنا فرض ہے ہم یہ فرض اپنے اختیار سے بجا لائیں گے یا خواہش نفس اور شیطان سے مغلوب ہو کر ترک نماز کریں گے۔ یہ ہے اللہ کا علم یعنی تقدیر رزق کمانے کا مسئلہ بھی غور کریں تو اس سے سمجھ میں آ جائے گا کہ رزق کے بارے حکم ہے :

كُلُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَلَا تَطْغَوْا فِيهِ فَيَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبِي وَمَن يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي فَقَدْ هَوَىo

’’ (اور تم سے فرمایا:) ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جن کی ہم نے تمہیں روزی دی ہے اور اس میں حد سے نہ بڑھو ورنہ تم پر میرا غضب واجب ہو جائے گا، اور جس پر میرا غضب واجب ہوگیا سو وہ واقعی ہلاک ہوگیا‘‘۔

طہ ، 20: 81

یہ حکم بالکل واضح ہے۔

وَلَا تَاْکُلُوْآ اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ.

’’اور تم ایک دوسرے کے مال آپس میں ناحق نہ کھایا کرو‘‘۔

البقرۃ ، 2: 188

یہ ہے حکم ممانعت، جو بالکل واضح ہے۔ اب اللہ کا کمال علم یہ ہے کہ اسے معلوم ہے ان واضح احکام کے باوجود، کون حلال کی پابندی کرے گا اور کون اپنے اختیار سے ان احکام کی خلاف ورزی کرے گا۔ بندے کو کرنے کے بعد معلوم ہوگا کہ میں نے کیا کیا غلطی کی، کب کی، کیوں کی؟ اور ان تمام امور کو رب تعالیٰ ازل سے جانتا تھا۔ اب فرمائیے ! انسان ان واضح احکام و ہدایات کے ہوتے ان کے خلاف کیوں کرے؟ اور علم الٰہی جس کا اسے کوئی پتہ نہیں، اسے ترک حکم یا حکم کی خلاف ورزی کا کیوں بہانہ بنائے؟

در اصل ہمارے دینی امور میں بے حسی ہمیں ایسے وساوس کا شکار کرتی ہے۔ یہ سوچ ایسی ہی ہے کہ ایک شخص نے دوسرے کے ہاتھوں قتل ہونا ہے یہ تقدیر الٰہی میں اٹل ہے اب اس قاتل کو سزا کیوں دی جاتی ہے؟ یہی حال چوری، بد کاری اور دیگر جرائم کا ہے تو اس کا جواب یہی ہے کہ تقدیر الٰہی یعنی علم الٰہی میں کیا ہے اور کیا نہیں اسے مالک تقدیر جانے، ہم تقدیر کے مامور نہیں احکام شرع کے محکوم ہیں۔ ہمیں وہی کرنا چاہیے جس کا حکم شریعت نے دیا ہے گمراہی کے اندھے کنوؤں میں نہیں جھانکنا چاہیے جہاں پہلے صحیح اندازہ نہیں ہوتا، گرنے کے بعد ہوتا ہے جب وقت ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔

تقدیر علم خداوندی کا نام ہے :

ہر کام اللہ کی رضا سے ہوتا ہے اگر رضا سے مراد مشیت ہو تو ٹھیک ہے اللہ کی مشیت یہ ہے کہ ہر انسان کو اختیار، ارادہ اور اچھے برے کا علم حاصل ہو، نیک و بد کھول کر اس کے سامنے رکھ دیا جائے، نیکی اور بدی کے نتیجہ سے آگاہ کر دیا جائے اور کسی ایک کے اختیار کرنے میں اسے اختیار دیا جائے اور وہ اپنی مرضی و اختیار سے نیکی یا بدی میں سے ایک کو اختیار کر لے اب بندہ کس کو اختیار کرتا ہے اس میں مختار ہے کیا اختیار کرے گا اس کو اللہ ازل سے جانتا ہے اس علم الہی کو تقدیر کہتے ہیں کہ جو دنیا میں ہو رہا ہے اس کے علم اور ٹائم ٹیبل کے مطابق ہو رہا ہے محض اتفاق سے کچھ بھی نہیں ہو رہا چونکہ بندہ نہیں جانتا اس لیے وہ اندھیرے میں تیر پھینکنے کا مکلف نہیں وہ قرآن و سنت کے ان احکامات پر عمل کرنے کا مکلف ہے جو واضح ہیں جن میں خفاء نہیں لہٰذا وہ احکام شرع چھوڑ کر علم الٰہی کی کھوج میں کیوں لگے؟

دنیا کمانے میں تقدیر کا سہارا کوئی نہیں لیتا، تگ و دو کرتا ہے۔ دین کے معاملہ میں بہانے بنائے جاتے ہیں لہٰذا تقدیر کی فکر نہ کریں، احکام شرع کی تعمیل کی فکر کریں کیا سود خور یہ کہہ کر بچ جائے گا کہ میری تقدیر میں سود خوری لکھی ہوئی تھی کہا جائے گا آپ کو تقدیر یعنی علم الٰہی جو غیب ہے وہ نظر آ گیا اور قرآن میں حرمت سود کا واضح حکم نظر نہ آیا۔

کیا قاتل یہ کہہ کر چھوٹ جائے گا کہ میرے ہاتھوں قتل ہونا تقدیر میں تھا۔ کہا جائے گا حرمت جان اور قتل کا حرام ہونا تو قرآن میں واضح طور پر موجود تھا جس کے آپ مکلف تھے کیا نوشتہ تقدیر بھی آپ کے سامنے ایسا ہی واضح تھا جس پر آپ نے عمل کیا؟ حکم شرع پر عمل کرنا تو قرآن میں موجود ہے، کیا تقدیر کے مطابق عمل کرنے کا بھی قرآن و سنت میں کہیں حکم ہے؟ پس احکام شرع پر عمل کریں جس کا حکم ہے تقدیر علم خدواندی کا نام ہے اسے سپرد خدا کریں۔

لہٰذا تقدیر کا مطلب اللہ کا علم ہے :

اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل و شعور، ارادہ اور اختیار دیا ہے اس کو سیدھا اور غلط راستہ واضح کر کے بتایا ہے دونوں راستوں پر چلنے کا انجام بھی بتایا ہے اور پھر اس کو اپنی مرضی سے کسی ایک راستے پر چلنے کا اختیار بھی دیا۔ اس سے بندہ مجبور کہاں سے ہوگیا مجبور نہیں اسے اختیار ہے۔ خدا کے حکم کے بغیر پتا بھی نہیں ہل سکتا کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایک کا علم اللہ کے علم اور قدرت میں ہے اگر اللہ تعالیٰ کسی کو کسی کام سے زبردستی روکنا چاہے تو روک سکتا ہے اور بندہ ہو یا پتا حرکت نہیں کر سکتا اگر اللہ تعالیٰ نے اپنی مرضی سے بندے کو اختیار دے دیا ہے۔ چاہے نیکی کرے چاہے گناہ نہ زبردستی نیکی کروائی جائے گی نہ برائی سے جبراً روکا جائے گا یہ اختیار اگر انسان صحیح استعمال کرے تو جنتی اور غلط استعمال کرے جہنمی تقدیر کا مطلب اللہ کا علم ہے یعنی اللہ تعالیٰ پہلے سے جانتا ہے کہ بندہ اپنی مرضی سے کیا کرے گا اور بس اس سے بندہ مجبور نہیں ہو گیا۔ ہم اللہ کی تقدیر کے پابند نہیں اس کے حکم کے پابند ہیں حکم واضح ہے تقدیر کا غلط استعمال ظالم، جابر بادشاہوں نے پبلک کو دبانے کے لیے کیا ہے اور آج بھی کر رہے ہیں یعنی گناہ خود کرو بہانہ تقدیر کا بناؤ۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی