غیر معنیہ مدتِ قیام میں قصر کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:3033
کیا فرماتے ہیں علمائے دینِ متین بیچ اس مسئلہ کے آج کل پاک فوج ملک کی مغربی سرحدوں پر دہشت گردوں کے خلاف مصروف ہے۔ ملک کی دور دراز چھاؤنیوں سے وہاں جا کر فوج قیام کرتی ہے اس صورت میں ذیل مسائل درپیش ۤہوتے ہیں۔

1۔ فوج ایک ہی جگہ سال یا دو سال ٹھہرتی ہے اس دوران دشمن سے لڑائی کے واقعات بھی درپیش آتے ہیں تو کیا وہ قصر نماز ادا کرے؟

2۔ کیا مسافر نماز جمعہ یا نماز عید ادا کرے گا؟

3۔ غیر معینہ مدت قیام کے بعد وقتاً فوقتاً فوج ضرورت کے تحت جگہ تبدیل کرتی ہے تو کب تک قصر نماز ادا کرے؟

4۔ کیا کئی سال تک نماز قصر ہی پڑھی جائے گی؟

5۔ اگر قصر نماز کی بجائے پوری نماز ہی پڑھ لی جائے تو کوئی حرج ہے یا نہیں؟

6۔ اگر بالا آفیسر نماز جمعہ یا عید منعقد کرنے پر اصرار کریں تو جمعہ یا عید پڑھنے میں کوئی حرج ہے یا نہیں؟

براہ کرم قرآن سنت کی روشنی میں واضح فرمائیں

  • سائل: قاری حسنات احمدمقام: پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 19 اپریل 2014ء

زمرہ: مسافر کی نماز

جواب:

آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں۔

  1. اگر ایک مقام پر پندرہ یا زیادہ دن رہنے کا ارادہ ہے تو پھر پوری نماز پڑھیں۔
  2. مسافرپر نماز جمعہ اور نماز عید واجب نہیں، اگر ادا کریں گے تو ثواب ملے گا۔ الگ سے نماز ظہر ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
  3. اگر پندرہ دن سے کم ایک جگہ قیام نہیں کرنا تو نماز قصر ہی ادا کریں گے خواہ ساری زندگی اسی طرح گزرے۔
  4. اگر کسی کی ساری زندگی اسی طرح گزرے کہ وہ ہر جگہ پندرہ دن سے کم ہی قیام کرے تو وہ ساری زندگی قصر ہی کرے گا۔
  5. مسافر کے لیے نماز قصر کرنا واجب ہے۔ پوری پڑھے گا تو گناہ ہو گا۔
  6. اگر آپ تین یا تین سے زیادہ لوگ ہوں تو نماز جمعہ یا عیدین کی جماعت کروا سکتے ہیں، کوئی حرج نہیں ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی